کرکٹ: تجاہل عارفانہ

خدشہ تھا کہ پاکستان میں کرکٹ کے میدان ویران ہوجائیں گے؟ لیکن بہت کچھ بہتر ہو رہا ہے جیسا کہ ویسٹ انڈیز کا حالیہ دورہ پاکستان اب تک کئی حوالوں سے قومی ٹیم کے لئے خوش آئند ثابت ہوا اور شکر ہے کہ ویسٹ انڈیز کی آمد کے بعد اس سوال کا جواب نفی میں مل گیا۔ دوسرا مثبت پہلو یہ ہے کہ قومی ٹیم نے ایک سال میں سب سے زیادہ یعنی اُنیس ٹی ٹوئنٹی مقابلے جیتنے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے اور امید یہی ہے کہ وہ تیسرا میچ جیت کر ان نمبرز کو بیس تک لے جائے گی۔ اس سے پہلے بھی یہ اعزاز سترہ میچوں کے ساتھ قومی ٹیم کے پاس ہی تھا لیکن جہاں اتنا سب کچھ اچھا ہورہا ہے‘ وہیں کچھ سوال بھی اٹھ رہے ہیں اور ان میں اہم ترین سوال خالی میدان سے متعلق ہے۔ اس حوالے سے زیادہ بات سابق کپتان قومی کرکٹ ٹیم وسیم اکرم کی ٹوئٹ کے بعد ہونا شروع ہوئی جس میں انہوں نے نہ صرف خالی میدانوں پر افسوس کا اظہار کیا بلکہ لوگوں سے یہ سوال بھی پوچھا کہ ”اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟“پاکستان میں کرکٹ کھیلنے اور دیکھنے کا جنون ایک جیسا بلند پایا جاتا ہے لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی نے اِس شوق کو بھی متاثر کیا ہے اور اگرچہ کرکٹ کے شائقین زیادہ ہیں لیکن مہنگائی اور تنگدستی ایسی رکاوٹیں ہیں کہ جو انسان کو اپنے شوق سے زیادہ پیٹ بھرنے کے علاوہ بھی بہت کچھ اور سوچنے کی دعوت دیتی ہے۔ پاکستان میں ایک عام مزدور بارہ گھنٹے محنت کرتا ہے اور اگر اگر خوش نصیب ہو اور وائٹ کالر نوکری مل جائے تو یہ ڈیوٹی آٹھ گھنٹے تک محدود ہوسکتی ہے لیکن شہروں میں ٹریفک کا عذاب ان آٹھ گھنٹے والے مزدوروں کو بھی دس سے گیارہ گھنٹے گھر سے باہر گزارنے پر مجبور کردیتا ہے۔ ایک نکتہئ نظر یہ بھی ہے کہ اب مالی مشکلات کے سبب کرکٹ میچ گراؤنڈ میں دیکھنا تفریح نہیں رہا بلکہ اسراف اور جرم بن چکا ہے۔ یہ تاثر جذباتی کہی بلکہ بار بار کے تجربات کی روشنی میں پورے وثوق سے کہی جا رہی ہے کہ ایک عام آدمی جن مشکلات بھرے مالی حالات سے گزر رہا ہے تو وہ کس سوچ اور ذہنی کیفیت کے ساتھ میدان میں جائے گا؟ ایک طلب یہ ہو سکتی ہے کہ زندگی کی مشکلات سے کچھ وقت نکال کر غم غلط کیا جائے۔ کچھ اچھا کھا پی لیا جائے۔ بیٹھنے کی اچھی جگہ اور ماحول سے لطف اندوز ہوا جائے لیکن جہاں گھنٹوں قطار میں کھڑے ہو کر گراؤنڈ میں داخلہ ملے وہاں مزے کرکرا ہو جاتا ہے۔ کسی انسان کی عزت نفس بھی ایک شے ہوتی ہے جو جس کی طرح لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے مجروح کی جائے تو ایسی صورت میں کونسا کھیل میں ایسی دلچسپی رکھنے والا ہوگا جو میدان آنا چاہے گا۔ ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ عالمی کرکٹ کے گراؤنڈ شہروں میں ہیں جہاں زندگی کی مصروفیت کسی سے ڈھکی چھپی یا خفیہ نہیں ہوتی اور تھکا دینے والے معمولات بھی خفیہ نہیں بلکہ ہر کوئی شہری زندگی سے واقف ہے لیکن پاکستان میں کرکٹ کے فیصلہ ساز عوام کی کم ہوتی قوت خرید‘ مہنگائی‘ بیروزگاری اور معاشی پریشانیوں سے لاعلم ہیں تو یہ اِس تجاہل عارفانہ کا دور ختم ہونا چاہئے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ جنہوں نے جمعہ‘ ہفتہ اور اتوار کو چھوڑ کر پیر اور منگل کو دو دن لگاتار میچ منعقد کئے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہفتے کے آغاز میں ہر دفتر میں معمول سے زیادہ کام ہوتا ہے‘ ایسی صورت میں بھلا لوگ کس طرح میدان کا رخ کرسکتے ہیں؟ اگر یہی میچز جمعہ‘ ہفتہ اور اتوار کو منعقد کروائے جاتے تو یقینی طور پر چھٹی کا فائدہ ہمیں بھرے ہوئے میدان کی صورت میں نظر آتا۔ ذہن نشین رہے کہ تین ایک روزہ سیریز کے دو میچز بھی پیر اور بدھ کو ہی کھیلے جائیں گے یعنی جب لوگ ٹی ٹوئنٹی میچوں کیلئے وقت نہیں نکال سکے تو خود سوچ لیجئے کہ ایک روزہ میچ میں سٹیڈیم کی صورتحال کیا ہوگی۔