اب تو ہم گرمی کے موسم کے لئے ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔چند ماہ پہلے گرمیوں کی جھلسا دینے والی دوپہریں تھیں تو سردی کے برف جما دینے والے ٹھنڈ ے موسم کی یاد آتی تھی۔سوچتے تھے کہ سردی کا موسم آخر کب آئے گا۔پھر کیا ہوا سردی آبھی گئی اور شامِ شہرِ یاراں میں خنکی نے ڈیرے ڈال دیئے۔ محفلیں ایک بار پھر رات کے آنچل کے پھیلنے سے پہلے ہی دن میں چاروں اور سورج کے ہوتے سوتے دھیمی پڑ گئیں۔دن کو سڑک پر ایک بجے کے پہر یوں سناٹا چھانے لگا تھا جیسے تنہائی کے خیال نے کسی خاص صورت کے جامے میں ظاہر ہونے کا پروگرام بنایا ہو۔حال یہ کہ یار دوست کہیں اکٹھے بیٹھنا چاہیں تو دھوپ کا سائبان تلاشتے ہیں۔سٹاف روم کے اندر کی رونقیں جیسی مانند پڑ گئی ہیں۔ لاؤ لشکر اٹھا کر کرسیاں لاد کر کالج لان میں گول دائرے کے حلقہ کے اندر گردا گرد پھیر لی جاتی ہیں۔ تاکہ دھوپ کے جلتے ناتواں سورج تلے چھپ کر کرنوں کے اس الاؤ میں پناہ لیں۔ آدمی بھی کسی ایک حالت پر قناعت نہیں کرتا۔ کبھی میسر ہو تو کسی اور کی طلب ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ دوستوں کے حلقے میں یہ خوشبو بھی جسم وجاں کو جیسے برف کی سلوں کی چار دیواری میں تصور کو برف کی کاش بنانے کو تیار ہے کہ سردی کے مزید مزے کے لطف حاصل کرنے کو برف باری میں روئی کے گالے اپنی کالی گرم کوٹیوں اور سر کے سیاہ بالو ں میں وقت سے پہلے سفیدی بھرنے کو ڈالیں۔ جیسے وقت کے مصور کے من میں کچھ نئی کچھ عجب سما جائے کہ مقررہ اوقات سے پیشتر ہی کالے بالوں میں چاندی کے سفید تارجھلکنے لگیں۔”ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا“ ”ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں“۔ ابھی سرما کا آغاز ہی تو ہوا ہے۔آگے او ربھی ٹھنڈ پڑے گی خنکی کے ابھی دو ماہ اور ہیں۔ چلو ایسے میں آدمی کو سہار حاصل ہوہی جاتی ہے۔آدمی میں اتنی طاقت رکھی گئی ہے کہ وہ اجڑے حالات میں خود کو باقی رکھ سکتا ہے۔جس مخلوق میں اپنے آپ کو بچالینے کی صلاحیت اس کے خون میں موجود نہ ہو سائنسی طور پر اس مخلوق کی موت ہو کر رہتی ہے۔خواہ وہ چیونٹی ہو یا ہاتھی ہو۔ اب کاکروچ لاکھوں سالوں سے موجود ہیں اور پہاڑ جیسا بڑا جسم رکھنے والے ڈائینو سار دنیا سے ناپید ہوگئے‘ حالات کا مقابلہ اگر نہ کر سکے تو ڈائنوسار نہ کر سکے۔روس اور چین میں ہمارے پشاو رکی طرح تپش کا ایک درجہ حرارت نہیں۔وہاں تو ٹھنڈ کا پچاس پارہ نیچے ہوتا ہے۔مگر وہاں زندگی پائی جاتی ہے۔وہ بھی جی لیتے ہیں ہم بھی جی لیں گے۔یہاں وہ بھی اس سیزن میں گزار ہی لیں گے جن کے ہاں گیس تو کیا آگ جلانے کو لکڑیاں اور پھر سر پر دھوپ بھی نہیں۔پھر دھوپ ہو تو سردی کی اس شدید دھند کی کرنیں بھی زمین پر کیا نیچے آ پائیں گی۔ان کے گھر کے پاس شہر میں ہر چند لکڑیوں کا ٹال ہو مگر ان کے گھر چولھوں پر برف جمتی ہو۔آگ ہو تو پکائیں مگر پکنا پکانا بھی کیا گھر میں دانے ہوں تو چولھے پر کچھ چڑھے کچھ دال دلیہ آگ کو سلگا کر منہ سے پھونک کر ہانڈی دھری جائے۔ہائے اب کے تو کورونا اور ایمی کرون پھر محدود لاک ڈاؤن اور سموگ نے گھروں کے گھر اجاڑ دیئے۔ جو کمانے والے تھے وہ بیروزگار ہوکر اس مہنگی ترین صورتِ حال میں مہنگائی کے لگا تار کوڑے سہہ رہے ہیں۔وہ کوڑے جو رات بھر تیل میں رکھ کر مزید نرم اور چست وتوانا کئے جاتے ہیں تاکہ اگلے کے جسم پرلگیں تو گہرا نشان چھوڑ جائیں اور اپنی شدت سے جسم پر سانپوں کے لہراتے سائے ہر انگڑائی کے ساتھ یخی کے کارن زخموں کے ٹھنڈے پڑنے پر ا س درد میں مزید اضافہ کریں۔ٹی وی پر دیکھتے ہیں کہ گرمی کا ڈرامہ چل رہا ہے۔وہاں کردارموسم گرما میں چل پھر رہے ہیں۔اس پر حسرت ابھرتی ہے کہ کاش گرمی جلد ہی آ جائے۔ دل میں ہوک اٹھتی ہے کہ یار گرمی کا موسم اچھا ہوتا ہے۔بندہ جہاں چاہے نکل جائے گاڑی ہو جتنے پایے ہوں رکشہ ہو تانگہ سہی مگر ہواتو لگتی ہے۔ یہی ہوا ہوتی ہے جس کے لئے کمرے کے دروازے کھڑکیاں کھولتے تھے۔ اب تو اس برف زار میں کھڑکیاں دروازے بند کرتے ہیں کہ ہوا اندر نہ آنے پائے۔ بلکہ درز اور سوراخ جو دروازوں دروں اور بالکونیوں میں ہوتے ہیں وہ بھی کاغذ دھنسا کر بند کرتے ہیں کہ ٹھنڈک کی لہریں رک جائیں۔