اہم عالمی اور ملکی امور

آج خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ سر ہونے جا رہا ہے اور یہ اس حوالے سے اہم ہے کہ بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی بنیاد کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔تاہم اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ماضی میں غیر جمہوری حکومتوں نے ہی اس طرف توجہ دی ہے۔واضح رہے کہ اس وقت جو بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ طے ہور ہاہے تو یہ سات برس بعد انجام پارہا ہے اور اس میں کچھ نئے کام بھی ہو رہے ہیں جن میں پہلی مرتبہ، تحصیل میئر اور اہم عہدوں کیلئے براہ راست عوامی ووٹ سے انتخاب ہوگا۔ اب کچھ تذکرہ بین الاقوامی امور کا جن میں افغانستان سر فہرست ہے جہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگر چہ امن کے قیام میں بہتری آئی ہے تاہم معاشی مشکلات کے باعث عوام بھوک و افلاس کا شکار ہیں،افغانستان میں بگڑ تی انسانی صورتحال پر اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس اسلام آباد میں ہو رہا ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ افغانستان کے عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں، افغانستان میں انسانی بحران جنم لے سکتا ہے اسی وجہ سے دنیا کی توجہ افغانستان کی جانب مبذول کرانے کیلئے وزرائے خارجہ کانفرنس کا انعقاد کر رہے ہیں۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ جو لوگ افغانستان کے زمینی حقائق سے باخبر ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ کو اپنی پالیسی کا از سرنو جائزہ لینا چاہیے۔ان کا کہنا تھا افغانستان کے مسئلے پر دنیا غفلت کا مظاہرہ نہ کرے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ افغانستان کے حالات سے صرف نظر کرنا خطرناک ہے، پہلے بھی امریکہ نے افغانستان سے جانے کے بعد منہ موڑ لیا تھا  اور اس کے نتائج دنیا نے دیکھ لئے۔ دوسری طرف عالمی منظر نامے پر یوکرائن کا مسئلہ بھی چھایا ہوا ہے جہاں روس نے یوکرین کی سرحد پر کشیدگی کم کرنے کیلئے شرائط پیش کر دی ہیں۔ جس میں یورپ کے ممالک میں امریکی زیر قیادت نیٹو فوجی اتحاد کی سرگرمیوں پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ  شامل ہے۔ روسکا کہنا ہے کہ نیٹو نہ صرف یوکرین کی بلکہ دیگر ممالک کی بھی نیٹو میں شمولیت کو مسترد کرے تاکہ کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔ماسکو چاہتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ فوری طور پر مذاکرات کا آغاز ہو - لیکن جیسے کہ پہلے سے توقع تھی  روس کی تجاویز کو  امریکہ نے قبولیت نہیں بخشی اور وائٹ ہاس کی ترجمان جین پساکی نے صحافیوں کو بتایا کہ 'ہمارے یورپی اتحادیوں اور شراکت داروں کے بغیر یورپی سلامتی پر کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔ واضح رہے کہ نیٹو، جو اصل میں سابق سوویت یونین کے ممکنہ خطرات سے یورپ کے دفاع کے لیے ایک فوجی اتحاد کے طور پر قائم کیا گیا تھا، اس کی افواج بالٹک ریپبلکز اور پولینڈ میں موجود ہیں۔  روس کا کہنا ہے کہ اس  نے امریکہ اور نیٹو کو دو معاہدوں کا مسودہ پیش کیا ہے۔ اِن تجاویز میں روس نے  بنیادی مطالبات پیش کیے ہیں، جن کے تحت سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے بعد نیٹو میں شامل ہونے والے ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان علاقوں میں فوج یا ہتھیار تعینات نہ کریں جہاں انہیں روس کے لیے خطرہ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ بھاری بمباروں اور جنگی جہازوں کو ان کی قومی فضائی حدود یا پانی سے باہر کے علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں ہوگی جہاں سے وہ حملہ کر سکتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیٹو تین بالٹک جمہوریہ یا پولینڈ میں سے کسی میں بھی کوئی کردار ادا نہیں کرے گا۔