پاکستان کی میزبانی میں ’او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل‘ کا غیرمعمولی اجلاس کا بنیادی مقصد افغانستان میں درپیش انسانی بحران ہے جس کے سدباب اور انسانی بنیادوں پر افغانستان کی معاونت کی جانب عالمی برادری کی توجہ مبذول کرنے کی کوشش کی جائے گی لیکن اگر ’اُو آئی سی‘ تنظیم کے رکن ممالک اپنی ہی جگہ متحد ہو جائیں تو کسی دوسری عالمی برادری کی ضرورت نہیں رہتی۔ پاکستان اپنے محدود وسائل اور اثرورسوخ میں یہی کچھ کر سکتا ہے اور شروع دن سے پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہئے کیونکہ ایسا کرنا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوگا۔ افغانستان کے بارے میں عالمی برادری کے تحفظات جیسا کہ انسانی بنیادی حقوق کی پاسداری‘ دہشت گردی سے تحفظ اور محفوظ انخلأ جیسی شرائط اتنی وسیع ہیں کہ اِن کا کوئی بھی منطقی انجام نہیں ہو سکتا اور انہیں سوائے بہانے کے استعمال کرنے کے سوا کوئی دوسری وجہ نہیں۔ درحقیقت مغربی دنیا افغانستان میں اسلامی نظام کو رائج اور کامیاب ہوتا دیکھنا نہیں چاہتی اور یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے فنڈز منجمد کئے گئے ہیں اور وہاں گزشتہ دو سالوں سے قحط جیسی صورتحال ہے۔ اگر اس صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو گزشتہ بیس سال سے استحکام اور امن کیلئے کی گئی ساری کوششیں خاک میں مل جائیں گی!او آئی سی وزرائے خارجہ کے غیرمعمولی اجلاس کا پاکستان میں طویل عرصے بعد انعقاد خطہ کے امن و سلامتی کے حوالے سے یقینا اہم پیش رفت ہے۔ اجلاس میں برادر سعودی عرب کی خصوصی دلچسپی بھی نیک شگون ہے کہ اس نے وزرائے خارجہ کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے کونسل کے غیرمعمولی اجلاس کے پاکستان میں انعقاد کی تجویز سے اختلاف نہیں کیا اور افغانستان سے متعلق غوروخوض کیلئے اسلام آباد سے بہتر کوئی دوسرا مقام بھلا کونسا ہو سکتا ہے۔او آئی سی سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم نے پاکستان پہنچنے کے بعد ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں کہا کہ پاکستان نے پرامن اور مستحکم افغانستان کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ افغانستان سے عجلت میں ہونے والے امریکی انخلأ کے بعد پاکستان نے ہی افغانستان کو ممکنہ نئے انتشار سے بچایا ہے‘ جس کے ساتھ اپنے تحفظات کے باوجود امریکہ بھی افغان امن عمل کی کامیاب تکمیل پر اطمینان کا اظہار کرتا رہا۔ حالانکہ امریکہ نے جس انداز میں افغان حکومت اور عوام کو حالات کے تھپیڑوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنا سول اور فوجی انخلأ مکمل کیا‘ اُس کے پیش نظر افغانستان میں خانہ جنگی کے سنگین خطرات کی تلوار لٹکتی نظر آرہی تھی۔ اس صورتحال میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادتوں نے افغان سرزمین پر پائیدار امن کی بنیاد رکھنے کیلئے ہر ممکن تعاون و رہنمائی کی پاکستان کی جانب سے افغانستان میں امن و استحکام کی کوششوں کے تحت ہی بیرونی دنیا سے روابط کئے گئے اور پاکستان کی میزبانی میں چین‘ امریکہ اور روس پر مشتمل ٹرائیکا پلس اجلاس کا انعقاد ہوا۔ اس اجلاس میں چاروں ممالک کے نمائندگان نے افغانستان کی صورتحال پر مفصل تبادلہئ خیال کیا اور طالبان کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ بھی غیررسمی ملاقاتیں کیں اور ان پر مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنے اور جامع حکومت کیلئے اقدامات بروئے کار لانے پر زور دیا گیا۔ اس وقت بھی عالمی قیادتوں کا یہی تجسس تھا کہ افغانستان معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اس لئے عالمی برادری اس کے منجمد وسائل تک رسائی اور ہنگامی بنیادوں پر انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنائے‘ ماضی کی غلطیاں دہرانے سے گریز کرے اور مثبت رویہ جاری رکھے۔ اس کے بعد پاکستان کی تحریک پر بیجنگ اجلاس کا بھی انعقاد ہوا جس میں طالبان قیادتوں کو بھی مدعو کیا گیا اور ان کے تحفظات کا جائزہ لے کر اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ افغانستان کے امن و استحکام کے ساتھ ہی عالمی اور علاقائی امن جڑا ہوا ہے جس کیلئے عالمی برادری کو بہرصورت کردار ادا کرنا اور افغانستان کے ساتھ تعاون وسیع کرنا ہوگا۔ اسی سلسلہ کو آگے بڑھانے کیلئے پاکستان کی میزبانی میں اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل کا اہم اجلاس اسلام آباد میں طلب کیا گیا ہے۔