میں نے ایک کالم سات دنوں میں لکھا۔ حالانکہ ایک ہی نشست میں تحریر ہو سکتا تھا۔ مگر مسئلہ ہوا اور ہوتا ہے۔ یہ کہ لکھنے بیٹھو تو کچھ اور لکھا جاتا ہے۔جو عنوان اور موضوع پہلے سے ذہن میں ہوتا ہے وہ کہیں دور پار چلا جاتا ہے۔ بعض مسائل بہت ارجنٹ نوعیت کے ہوتے ہیں۔ذہن میں خیال ہوتا ہے گھر پہنچ کر اس نکتہ پر قلم آرائی کروں گا۔کیونکہ اس کا تعلق براہِ راست عوام کی روزمرہ تکالیف سے ہوتا ہے۔ویسے ہمارے کالموں پر کون فارغ ہے جو عمل درآمد کرتا ہے۔مگر دل کی حسرت نکال لینے میں کیا حرج ہے۔ مگر لکھنے بیٹھیں تو قلم کہیں اور پھر وہاں سے کدھر اور منتقل ہو جاتا ہے۔گویا ایک گھوڑا کہ جس پر بیٹھے ہوئے نہ پاؤں رکاب میں ہوتے ہیں۔ پھر نہ ہی ہاتھ باگ پر ہوتے ہیں۔ لیکن ایسے میں قلم کو آزاد چھوڑنا زیادہ اچھا ہوتا ہے۔وگرنہ اس کی باگیں کھینچ کر رکھنے سے یہ گھوڑا اپنے سوار کو منہ کے بل گرا دیتا ہے۔آزاد چھوڑنے کامطلب وہ آزادی نہیں جو اس وقت بعض ذہنوں میں در آئی ہے۔کالم میں کسی عنوان کے تحت بات شروع ہوتو کہیں سے کہیں جا نکلتی ہے بلکہ دور پار چلی جاتی ہے۔وہ شعر کہ ”بات نکلے تو گی پھر دور تلک جائے گی۔ لوگ بے وجہ جدائی کا سبب پوچھیں گے“۔“۔چونکہ آزاد قلم کا کرشمہ ہوتا ہے کہ ”دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے“۔اس لئے پھر اس بات میں وزن بھی ہوتا ہے اور زور بھی موجود ہو تا ہے۔کیونکہ ایسے میں قلم کے گھوڑے کو بے لگا م چھوڑنا اچھا ہے۔اگر اس پر زور آزمائی کی گئی۔ اگر اس کو حسبِ منشا کسی او رجانب زبردستی موڑنے کی کوشش ہو تو پہلے گھوڑا موڑ کاٹنے سے انکاری ہو گا۔ اس کھینچاتانی میں وہ قلم کار کو نیچے گرا سکتا ہے۔گرا دینے کامطلب یہ کہ اس وقت جب بیکار کی باتیں تحریر میں آ جائیں جو خود بخود نہ آئی ہوں لائی گئی ہوں خود رو نہ ہو ں گھسیٹ کر کورے کاغذ پر چٹ لگا دیئے گئے ہوں تو قاری اس رائٹر کو پڑھنا چھوڑ دے گا۔پھر یہ کسی رائٹر کو دی جانے والی سب سے بڑی سزا ہے۔اس لئے اس کالم کی مثال شربت کے خوبصورت گلاس کی ہے۔جی میں آئے جھٹ ہاتھ بڑھا کر غٹا غٹ پی لوں۔ مگر پہلے گھونٹ ہی سے زبان کو مایوسی ہوگی۔ کیونکہ شربت پھیکا ہوگا۔کوئی بھی تحریر ہو وہ اپنے آپ کو لکھواتی ہے۔بندہ خود اس کو اپنی مرضی سے نہیں لکھ سکتا۔کیونکہ اس مسئلے پر اگر اپنی مرضی جتلائی گئی تو اس میں الفاظ تو ہوں گے مگر اس کا مزاغارت ہو جائے گا۔کوئی عنوان جو ذہن میں موجود ہو تا ہے اس وقت تک تحریر میں نہیں آتا جب تک وہ ذہن کے چمن زار میں پھل کی طرح درخت پر دھیمے دھیمے پک نہ جائے۔ اگر پھل پک جائے تو خود بہ خود جھولی میں آن گرتا ہے۔ اکثر ہوتا ہے لکھنے بیٹھو کچھ اور لکھا جائے کچھ اور۔ لکھنے والے والا قلم سے زبردستی نہ کرے۔ وہ جب لکھنے بیٹھے تو اس وقت جو جو باتیں ذہن میں تھیں وہی لکھنا تھیں۔مگر جب قلم اٹھا کر سٹارٹ لیاتو مزید وہ وہ باتیں ذہن میں آنا شروع ہو گئیں جو آستینں چڑھا کرلکھنے کی میز پر بیٹھنے سے پہلے کبھی دماغ میں نہیں آئی ہوتیں۔اقبال کا شعر کہ ”تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو۔ کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں“ پھر فرمایا ”تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب۔ گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف“۔سٹوڈنٹس اکثر سوال کرتے ہیں کہ کالم کیسے لکھا جاتا ہے۔اس کے لئے کون کون سی باتیں ضروری ہوتی ہیں۔ان تمام سوالوں کا ایک ہی جواب ہے کہ آپ نے کورس میں افسانے پڑھے ہیں۔آپ افسانے کو سمجھنا چاہتے ہیں تو گھر میں سکون سے بیٹھ کر کوئی افسانہ تحریر کریں۔پھر لکھ کر لائیں۔ جب آپ اس تخلیق کی بھول بھلیوں سے گذریں گے آپ کو اس سلسلے میں راہ کی رکاوٹیں سامنے آئیں گی تو آپ جیسے تیسے افسانہ لکھ ہی لیں گے۔ ممکن ہے کہ آپ نے ایک اچھی تحریر لکھی ہو۔جس میں غلطیاں کم سے کم ہوں۔مگر کچھ نہ کچھ کمیا ں ضرور ہوں گی۔وہ جب استاد کے پاس لائیں گے تو ان کمیوں کی نشاندہی ہوگی۔ پھر جا کر سٹوڈنٹ کو کالم لکھنا سمجھ میں آئے گا۔کیونکہ وہ استاد کی طرح تخلیق کے عمل سے گذراہوگا۔اگر نہ گذرا ہو تو اس کو کالم رائٹنگ کے ٹپس تو دیئے جاسکتے ہیں۔مگر اس کاحق اسی وقت ادا ہو گا جب ایک طالب علم خود کالم لکھے۔پھر اس کے بعد وہ اس تحریر کو ایک مکمل تحریر سمجھتا ہو۔ا س کے بعد جب استاد کے سامنے اس کی لکھت کی کمیوں کو زیرِ بحث لایا جائے گا۔وہی وقت سیکھنے کا ہے۔اس وقت اس کے تخلیقی عمل کے وقت کے مسائل کا حل اس کی سمجھ میں آنا شروع ہوگا۔وہ سٹوڈنٹ دوسرے طلبہ کی بہ نسبت جلد ہی لکھنا سیکھ لے گا۔ اچھی تحریرلکھنے کے لئے اچھی تحریریں پڑھنا پڑھتی ہیں۔پڑھیں گے تو لکھیں گے۔لہٰذا لکھنے کے لئے پہلے پڑھنا ضروری ہے۔لکھنا تو آسان ہے مگر اچھا لکھنا مشکل ہے۔یہ مشکل اس وقت دور ہوگی جب آپ اچھی تحریریں پڑھیں گے۔