صحت کار ڈ کی کا میا بی 

خیبر پختونخوا میں صحت کارڈ کی کا میا بی آنے والے سالوں میں مو جو د ہ حکومت کے ایک کارنامے کے طور پر یا د رکھی جا ئیگی۔ یہ ایسا کا ر نامہ ہے جو اس سے پہلے کسی حکومت کے حصے میں نہیں آیا۔ اب یہ سکیم پنجا ب اور گلگت بلتستان میں بھی لائی جا رہی ہے فلا حی ریا ست میں مفت علا ج کی سہو لت کو بنیا دی اہمیت حا صل ہے اگر چہ سما جی تحفظ کی چار اور سکیمیں بھی سویڈن، بر طا نیہ‘ ناروے اور دیگر مما لک میں شہر ت رکھتی ہیں ان میں راشن اور گذارہ الا ؤنس، مفت تعلیم، آسان اور مفت انصاف کے ساتھ معا شرے کے کمزور طبقوں کا تحفظ بھی شا مل ہے۔ ہمارے ہاں اب تک سما جی تحفظ کا نا م کسی نے نہیں سنا تھا اگر صحت کارڈ اور ہیلتھ انشورنس پر تقریر کی جا تی تو کسی کی سمجھ میں نہ آتی حکومت کی کا میاب حکمت عملی یہ ہے کہ پہلے سکیم لا ئی گئی اس کو گھر گھر پہنچا یا گیا یوں انگریزی اصطلا ح کے مطا بق گراس روٹ کی سطح پر لو گوں نے فائدہ اٹھا یا اب فائدہ اٹھا نے والے لو گ بول رہے ہیں اور حکومت کو دعائیں دے رہے ہیں۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ وزیر ستان، شانگلہ، چترال اور بٹگرام، کو ہستان کے دور دراز علا قوں اور پہا ڑی دیہات سے غریب اور نا دار مریض ریسکیو 1122کے مفت ایمبو لینس میں ایبٹ آباد، مردان اور پشاور کے بڑے ہسپتا لوں تک جا تے ہیں۔ ہسپتال کے آپریشن پر کوئی خر چہ نہیں آتا، 3سال پہلے یہ ایک خواب تھا اب یہ حقیقت ہے ایک نا دار مزدور کی بیوی کو فا لج کے علا ج کیلئے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر ہسپتال لا یا گیا۔ وہاں ایم آر آئی اور سی ٹی سکین کی سہولیات نہیں تھیں۔ مریض کو پشاور کیلئے ریفر کیا گیا اُسے ریسکیو 1122نے 10گھنٹوں کے سفر کے بعد پشاور پہنچا یا، جہاں بڑے ہسپتال میں انصاف صحت کارڈ پر اس کا مفت علا ج ہوا ڈی ایچ کیو ہسپتال آتے وقت اُس کی جیب میں 20ہزار روپے تھے بڑے ہسپتال میں 15دن علا ج کے بعد واپس اپنے گھر پہنچا تو 5ہزار روپے اس کی جیب میں بچ گئے تھے جس پر یہ وقت نہیں آیا اُس کو اس طرح کی سہولیات کا اندازہ نہیں ہو گا۔ خیبر پختونخوا کا با شندہ اوکاڑہ  میں ملا زمت کرتا ہے اس کی والدہ بیمار ہوئیں آپریشن کا حکم ہوا آپریشن کے اخراجا ت کا تخمینہ ساڑھے چار لا کھ روپے لگا یا گیا ملا زم اپنی والدہ کو پشاور لے آیا یہاں اس کا مفت آپریشن ہوا،صحت کارڈ کی مدد سے دوائیں بھی مفت مل گئیں واپس جا کر اُس نے اوکاڑہ چھا ؤنی میں یہ واقعہ سنا یا تو کسی کو یقین نہ آیا اگر کوئی رپورٹر ہسپتا لوں میں سے اس طرح کی مثا لیں ڈھونڈ کر سامنے لائے تو معلو م ہو گا کہ ایک سال کے اندر ایک کروڑ سے زیا دہ مریضوں کو اس کا براہ راست فائدہ ہوا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ غریب‘ نادار اور بے چارہ شخص کسی طاقتور کی سفارش کے بغیر یہ سہو لت حا صل کر تا ہے۔ ایم پی اے اور ایم این اے کے ذریعے دھکا لگا کر سہو لت حا صل کرنے کی ضرورت نہیں۔اگر نا خواندہ اور ناواقف آدمی ہسپتال آکر شکا یت اور افسوس کر تا ہے کہ میرے پا س صحت انصاف کار ڈ نہیں تو پاس بیٹھا ہوا خواندہ شخص اس کو بتا تا ہے کہ اپنا شناختی کارڈ اس دفتر میں دکھا ؤ ساراعلا ج مفت ہو جائے گا، انشورنس کمپنی کا نما ئند ہ بھی لو گوں کی رہنمائی کر تا ہے۔ ہسپتال کا عملہ بھی لو گوں کی رہنما ئی کر تا ہے۔اس طرح صحت کارڈ کی افادیت زکوۃ اور بیت المال سے ہزار گنا بڑھ گئی ہے‘زکوۃ اور بیت الما ل کو سفا رشی کلچر نے غریبوں کی پہنچ اور رسائی سے بہت دور کر دیا تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ سوات ایکسپریس وے اور بی آر ٹی کی طرح صحت کارڈ کی سہو لت کو بھی مو جو دہ حکومت کے بڑے منصو بے اور کامیاب کار نا مے کے طور پر یا د رکھا جائیگا۔