پشاور کہانی: تجاوزات سے مفادات تک

تیس اگست دوہزار اکیس: احیائے پشاور (Peshawar Revival Plan) نامی خصوصی مہم کو کامیاب بنانے کے صوبائی حکومت کے منتخب فیصلہ سازوں نے اِس بات پر اتفاق کیا کہ پشاور کے طول و عرض میں ”انسداد ِتجاوزات“ کے لئے ایک انتہائی بڑی کاروائی کا آغاز کیا جائے۔  اِس موقع پر پشاور میں تجاوزات کے تکنیکی پہلوؤں پر غور ہوا اور پشاور کے ترقیاتی ادارے ’پی ڈی اے‘ سمیت بلدیاتی اداروں (چاروں ٹاؤنز) اور ٹریفک پولیس کو الگ جائزہ رپورٹیں مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی  صوبائی دارالحکومت پشاور کے دیرینہ مسائل میں قوانین و قواعد کا بلاامتیاز و سخت گیر اطلاق نہ ہونا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ ماضی و حال میں تجاوزات کے خلاف جملہ کاروائیوں کا آغاز انتہائی زور و شور (دھوم دھام) سے کیا جاتا ہے لیکن انسداد ِتجاوزات کی اِن کاروائیوں کو نہایت ہی خاموشی سیمعطل بھی کر دیا جاتا ہے۔ مسئلہ مسائل کے حل سے متعلق فیصلہ سازی کا نہیں کہ اب تو تجاوزات کی اِس قدر بھرمار ہو گئی ہے کہ اندرون شہر کے بازاروں سے بنا ٹھوکر کھائے گزرنا محال ہو چکا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور شہر سے تجاوزات ختم کرنے کی ذمہ داری یہاں کے نگران بلدیاتی ادارے ”ٹاؤن ون“ کی ہے جس نے بلدیاتی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوتے ہی (گزشتہ 2 ماہ سے) تجاوزات کے خلاف کاروائیاں معطل کر رکھی ہیں۔ عجیب و غریب صورتحال ہے کہ ’تجاوزات پھر سے قائم ہونا شروع ہو گئی ہیں‘ جس کے باعث بازاروں میں پیدل آمدورفت اور گاڑیوں کی پارکنگ ممکن نہیں رہی اُن تاجروں اُور دکانداروں کو کیا کہا جائے جو اپنی دکانیں فٹ پاتھ پر بڑھا دیتے ہیں۔ جہاں فٹ پاتھ نہیں وہاں سڑک کنارے تک کی جگہ دکاندار اپنی ملکیت سمجھتے ہیں۔ اگر کسی دکاندار نے اپنی گاڑی دکان کے سامنے پارک نہ کی ہو یا بازار تنگ ہونے کی وجہ سے ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو وہ دوسروں کو گاڑی یا موٹرسائیکل کھڑا کرنے (پارکنگ) سے روکنے کے لئے اپنی دکان کا آدھے سے زیادہ سامان یا تو فٹ پاتھ اور سڑک تک پھیلا دیتا ہے یا پھر سازوسامان دکان کے آگے سے گزرگاہ پر لٹکا دیتا ہے جو وہاں سے گزرنے والوں کیلئے امتحان ثابت ہوتا ہے کہ اُنہیں اپنا سر اور پاؤں اِس بے ترتیب سازوسامان کے ساتھ ٹکرانے سے بچانا ہوتا ہے۔ پشاور کی اِن ”مستحکم و مستقل تجاوزات“ جس کے لئے ذمہ دار وں کا تعین مشکل نہیں  سے نجات آسانی ممکن ہے لیکن اِس کے لئے سیاسی وابستگیوں اور مصلحتوں سے بالاتر ہو کر کاروائیاں کرنی  پڑیں گی۔ ایسی کاروائیاں جن میں پشاور کے مفادات‘ حاوی ہوں۔