شہر گر دی 

پشاور شہر کو ہر شخص اپنے زاویے سے دیکھتا ہے کسی کوپشاورکے پیشے نظر آتے ہیں کسی کو دریا ئے باڑہ کے کنا رے صفائی والی کہا نیاں یا د آتی ہیں کسی کو شہر کے قدیم دروازے یا د آتے ہیں کسی کو دال گراں‘ بٹیر بازاں،نعل بندی وغیرہ نا موں سے مو سوم تاریخی محلے نظر آتے ہیں، کسی کو تالاب‘ نوشو با با اور طورہ قل بائے جیسے نا مو ں کی مساجد نظر آتی ہیں کوئی کہتا ہے پشاور قلعہ بالا حصار اور مسجد مہابت خان کا نا م ہے میں نے پشاور میں ایسی شخصیت کو دیکھا ہے جو پشاور کو بے نا م اور بے چہرہ لو گوں کے زاویے سے دیکھتا تھا۔حاجی معراج الدین سول سروس کے صوفی آفیسر تھے اتوار کے دن فارغ ہو تے تو کہتے آؤ ”شہر گردی“ کریں انکی اپنی اصلا حات اور ترا کیب ہو تی تھیں اپنے دوستوں کے گروپ کو ”سلسلہ‘ خوراکیہ“ کہتے تھے، بے روز گار نو جوا نوں کو ”اناج دشمن عنا صر“کا نا م دیتے تھے شہر گردی کیلئے ان کو ایک ہم خیال دوست کی ضرورت ہوتی تھی اور میری خو ش قسمتی یہ تھی کہ وہ مجھے شہر گردی میں ہمر کا بی کے قابل سمجھتے تھے۔ہمر کا بی کے اداب میں سے ایک ادب یہ تھا کہ ان سے کوئی بات پوچھی نہ جا ئے جو کچھ وہ بتا ئیں اس کو غور سے سن لیا جا ئے اور سرہلا نے کا فریضہ انجا م دیا جا ئے۔ شہر گر دی میں موٹر کا استعمال منع تھا پیدل چلنے کو وہ گیارہ نمبر کی مو ٹر کار کہتے تھے۔ہم پیدل نکلتے تو کبھی ہشتنگری سے داخل ہو کر گنج دروازے پر پہنچ جا تے۔ کبھی کابلی سے داخل ہو کر نمک منڈی سے ہوتے ہوئے رام داس تک گلیوں کی خا ک چھا نتے۔کبھی پیپل منڈی سے داخل ہو کر ڈبگری تک تنگ گلیوں سے گزر نے کا لطف اٹھا تے۔ان میں ایک گلی چمڑے کے تاجروں کی تھی۔معراج صاحب کا گو ہر مقصود اس گلی میں بھی ملتا تھا۔ ان گلیوں کی خا ک چھاننا بے مقصد نہیں تھا۔شہر میں چند بے نا م اور بے چہرہ لوگ تھے چلتے چلتے ایک مو چی کے پا س رک جاتے‘ سلا م کر کے خیریت دریا فت کر تے‘ تھوڑی دیر زمین پر ان کے پا س بیٹھتے۔ مو سم پر گفتگو کر تے۔ ایک لفا فہ ان کے ہاتھ میں تھما دیتے اور اجا زت لے لیتے۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد رک جا تے اور کہتے کہ مو چی کو معمولی آدمی نہ سمجھو بڑا پہنچ رکھنے والا شخص ہے۔اس نے جو کہا کہ اچھا مو سم آنے والا ہے اس سے مراد عالم اسلام کا غلبہ ہے۔ آگے کسی تنگ گلی میں ایک ٹھیلے والے کے پا س رک جاتے۔کوئی پھل خرید لیتے بڑا نوٹ دیکر ریز گاری واپس نہ لیتے۔پھل بھی گلی میں کھیلنے والے بچوں میں بانٹ دیتے۔ تھوڑی دور جا کر ٹھیلے والے کے بارے میں خبر دیتے کہ ان کا در جہ کیا ہے۔وہ ان کی شخصیت کے بارے میں حیرت انگیز معلومات دیتے جنہیں سن کر میں دنگ رہ جاتا۔ چلتے چلتے ایک دھو بی کی دکا ن پر سستا نے کیلئے ٹھہر جا تے ٹو ٹے بنچ پر بیٹھتے، دھو بی کے شاگرد کو پیسے دیکر مٹھا ئی لانے کیلئے بھیج دیتے اور دھوبی سے حا لات حاضرہ پر گفتگو کر تے‘اس دوران وہ مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے جس میں حالات حاضرہ سے لیکر ماضی کے دریچوں میں جھانکا جاتا اور دونوں آپس میں دلچسپ گفتگو کرتے۔مٹھا ئی لا نے والے سے ریز گاری واپس نہ لیتے مٹھا ئی دھو بی کو دیدیتے اور با ہر نکل کر مجھے بتا تے کہ یہ بڑا بندہ ہے۔ اس طرح شہر بھر میں دس بارہ بے چہرہ، بے نا م لو گ تھے جن کو وہ مختلف حوالوں سے معتبر مانتے تھے۔شہر گردی میں ایسے ایسے واقعات کے اشارے ملتے تھے جو عام لوگوں کی نظروں سے اُوجھل رہتے۔ یہ لو گ آج بھی شہر میں مو جود ہیں ان کو پہچا ننے والے آج بھی پہچانتے ہیں مگر ہم نے شہر گردی کرانے والا رہبر کھو دیا ہے۔ جن کو گمنام چہروں کی پہچان تھی اور جو شہر گردی میں ماہر تھا۔