آرگنائزیشن آف اِسلامک کوآپریشن (OIC) کی ’وزرائے خارجہ کونسل‘ کے ہنگامی اجلاس میں افغانستان کی موجودہ صورتحال جو کہ انتہائی سنگین ہے اور جسے بہتری کی طرف لانے کیلئے مسلمان ممالک کی اِس نمائندہ تنظیم کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اجلاس میں فلسطین اور کشمیر سے متعلق بات کی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ نائن الیون کے بعد دنیا میں اسلامو فوبیا میں شدت آئی۔ اجلاس کے دوران اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ افغانستان کی مدد کرنا ہمارا مذہبی فریضہ ہے اور مستحکم افغانستان خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے معاون ہو سکتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اجلاس میں شرکت کیلئے کل ستر وفود پاکستان آئے جن میں سے او آئی سی میں شامل ستاون ممالک میں سے بیس کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی جبکہ دس کے نائب وزرأ یا وزرائے مملکت نے اپنے ملکوں کی نمائندگی کی۔ اجلاس سے پاکستان‘ سعودی عرب‘ ترکی اور اردن کے وزرائے خارجہ کے علاؤہ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل اور نائب سیکرٹری جنرل انسانی حقوق نے بھی خطاب کیا۔ علاوہ ازیں نائجیریا‘ بحرین‘ کویت‘ انڈونیشیا‘ بوسنیا‘ ملائیشیا‘ ازبکستان‘ کرغزستان اور قطر کے وفود اور خلیج تعاون کونسل اور افغانستان کے حکام نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس میں شرکت کیلئے اقوام متحدہ‘ یورپی یونین‘ عالمی مالیاتی اداروں‘ علاقائی و بین الاقوامی تنظیموں‘ جاپان‘ جرمنی اور او آئی سی کے دیگر غیر رکن ممالک کے نمائندوں کو بھی دعوت دی گئی۔ اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ مستحکم افغانستان ہی خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے معاون ثابت ہو سکتا ہے اُور افغان عوام کی مدد کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ افغانستان کا بینکنگ کا نظام جمود کا شکار ہے‘ افغانستان کی موجودہ صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کے حالات کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا ہے۔ جتنی مشکلات افغانستان کے عوام نے اٹھائیں کسی اور ملک نے نہیں اٹھائیں۔ افغانستان چار دہائیوں سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔ دنیا کے کسی ملک نے افغانستان سے زیادہ مسائل نہیں دیکھے۔ پاکستان نے افغانستان کے معاشی حالات دنیا کے سامنے رکھے ہیں اُور کہا ہے کہ افغانستان کا معاشی بحران خطے کو بُری طرح متاثر کرے گا۔ افغانستان کی نصف آبادی کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور افغانستان کو انسانی المیہ سے بچانے کیلئے مسلم امت اور عالمی دنیا اپنا کردار ادا کرے۔ اپنے خطاب میں ترکی کے وزیر خارجہ میولود چاوش اولو نے کہا کہ افغانستان میں مالیاتی بحران بڑھ رہا ہے اور یہ بحران خطے کو متاثر کر سکتا ہے۔ افغانستان کے لاکھوں افراد کو بھوک کا سامنا ہے‘ پاکستان کا دنیا بھر سے افغانستان تک امداد پہنچانا خوش آئند ہے۔ اجلاس میں نائب سیکرٹری جنرل انسانی حقوق اقوام متحدہ نے کہا کہ افغانستان میں بینکنگ کا نظام بحال کرنا بہت ضروری ہے۔ افغانستان کی معیشت بحران کا شکار ہے‘ افغان مسئلے کے حل کیلئے سب کا جمع ہونا بہت ضروری ہے۔ او آئی سی اجلاس سے ایک روز پہلے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان اور پاکستان کیلئے جرمنی کے نمائندہ خصوصی جیسپر ویک سے ملاقات کے دوران کہا کہ دنیا غیر مستحکم افغانستان کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ افغانستان میں انسانی تباہی کا خطرہ ٹالنے کیلئے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ جرمن نمائندہئ خصوصی کے علاؤہ انڈونیشیا کی وزیرخارجہ مسز رتنو لیستاری پرینساری مرسودی نے بھی آرمی چیف سے ملاقات کی جس دوران جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی اور علاقائی امور میں انڈونیشیا کے کردار کو خصوصی اہمیت دیتا ہے۔ ایک طرف پاکستان کی افغانستان میں امن اور استحکام کیلئے کوششیں جاری ہیں تو دوسری جانب ایسے ممالک بھی جو اس معاملے میں رخنہ اندازی میں مصروف دکھائی ہیں۔ پاکستان میں او آئی سی اجلاس کے موقع پر بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ایک روزہ بھارت وسط ایشیامذاکرات کا انعقاد کیا گیا۔ اس صورتحال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بھارت خطے میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو فروغ دینے کیلئے مسلسل مصروف عمل ہے اور اس کے یہ عزائم خطے میں توازن اور استحکام کے قیام کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے ہنگامی اجلاس کا مقصد دنیا کو یہ باور کرانا تھا کہ افغانستان میں پیدا ہونے والا انسانی المیہ صرف اس خطے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے مسائل کا باعث بنے گا اور اس المیے کو پیدا ہونے سے روکنے کے لئے سب کو مل کر کوششیں کرنا ہوں گی۔ اس سلسلے میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا کردار سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے پاکستان اور سعودی عرب نے او آئی سی کے خصوصی اجلاس کا انعقاد کر کے ایک بار پھر اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ یہ ممالک افغانستان کے مسائل حل کیلئے سنجیدہ بھی ہیں اور اس سلسلے میں آگے بڑھ کر اپنے حصے کا کردار بھی ادا کررہے ہیں۔