خوش اخلاقی بہت اچھی چیز ہے۔لیکن اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔پچھلے روز الیکشن میں تو یہ بے حد و بے حساب دیکھنے میں آئی۔ قومی سطح پریہ حد پانچ سال بعد ہوتی ہے۔پھر بلدیاتی میں چار برس بعد اس کا مظاہرہ دیکھنے کو عام ملتا ہے۔مگر اب کے چھ سال کے بعد ہونے والے اس انتخابی معرکے میں اخلاقیات کا یہ مظاہرہ بے حد و حساب اور چھ سال بعد تھا۔عوام ترستے رہ گئے کہ کوئی آئے گا اورگلی کوچوں کا انتظام ٹھیک ہو جائے گامگر سب کچھ اُتھل پتھل تھا۔ اب کے نئی فال نکلی ہے تو امید ہو چلی کہ نئی فصل بوئی جا رہی ہے جس میں پھول اُگیں گے۔جو پرانے زخم کئی برساتوں کے بعد بھی نہیں دُھل سکے اب کے صاف و شفاف ہوجائیں گے۔بلکہ صاف و شفاف الیکشن میں مزید نکھر کر سامنے آئیں گے۔ووٹ ڈالے گئے او رخوب ڈالے گئے گلی گلی کوچے سے کونسلر نکلے۔کہیں جھگڑے بھی ہوئے اور کہیں الیکشن کو دھاندلی کے نام پر روک بھی دیا گیا۔مگر مجموعی طور پر اس انتخاب میں عوام کی دلچسپی بہت زیادہ تھی۔ جن نمائندوں نے گل کھلائے تھے وہ آئندہ پھول کھلانے کے نام پر دروازے پر آئے اور نئے وعدے کر کے چلے گئے۔جنھوں نے سچ مچ پھول کھلائے ان کے پھول تو ایک سال بعد ہی باسی ہو چلے تھے۔پھر ان میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اس کے بعد نئے تروتازہ پھول کھلاتے۔بلکہ وہ پھول کی بجائے پتھر کے قائل ہوئے اور ایک دوسرے کو سنگسار کرنے کے درپے نظر آئے۔خیر جو ہونا تھا ہوگیا مگر اب جو ووٹ پڑے ہیں تو نیک فال ثابت ہوں۔ یہ نہ ہوں ہم پھر سے چار سال کے لئے پھنس جائیں۔ پولنگ سٹیشن پر بہت رش رہا ہے۔عوام نے لشکر کی صورت میں جوق در جوق پولنگ بوتھ کا رخ کیا۔ پولنگ سٹیشن کے باہر عوامی نمائندوں کے ساتھی اور پارٹی ورکر بھی ہنگامی مدد کے لئے چست و توانا تیز وطرار تیار کھڑے تھے۔ جن ووٹروں کو فی الحال معلوم نہ بھی تھا ان کو بھی گھر پر فون کر کے بتلایاگیا کہ آپ کے مردانہ ووٹ وہاں اور زنانہ ووٹ دوسرے سکول کی عمارت میں ہیں۔ہر پارٹی والے اس سلسلے کی تمام تر معلومات چٹکی بجانے میں دینے کو تیار تھے۔مریض لائے گئے او ربہت سے معذور افراد کو بھی سہارا دے کر پولنگ سٹین کے اندر لایا گیا۔ کسی کو بٹھاکر دو آدمی اس کی کرسی اٹھا لائے کہ اس ایک ووٹ کی مدد سے بھی اس جنگ کا پانسہ پلٹ سکتا ہے۔پھر وہ ان خصوصی افراد کی وجہ سے اختیار والی کرسی پر بیٹھ سکتے ہیں۔لائن بنانا تو ہمارے مزاج میں داخل نہیں۔کچھ زور و زر والے لائن کو چیر پھاڑ کر خود کھڑے ہو جاتے۔پھر جو پہلے سے کھڑے تھے وہ بھی اس زیادتی کو اپنے اوپر روا کر لیتے۔ حالانکہ سب کو سب معلوم تھا مگر کیا کریں علاقے کے لوگ ایک دوسرے سے تعلق کے رشتے میں اس طرح بندھے تھے کہ کوئی کسی پر اعتراض نہ کر سکتا تھا۔ پولیس کا ایک آدمی گیٹ پر اور دوسرا اندر کمرے میں پولنگ بوتھ کے پاس ڈیوٹی سرانجام دے رہاتھا۔ رش بڑھ جانے کی صورت میں بدنظمی میں پریزائیڈنگ آفیسر خود باہر آیا اور ساتھ پولیس کارندے کو بھی لے آیا۔مگر وہاں سے نہ ہٹنے والے نہ ہٹے۔ کیونکہ وہ طبیعت کے ہٹیلے او رضدی تھے۔ ووٹ ڈال چکے تھے مگرپولنگ سٹیشن میں ٹولیوں کی صورت میں کھڑے گپپیں ہانک رہے تھے۔پولیس والے کے پاس کلاشنکوف کاندھے سے جھول رہی تھی مگر ہاتھوں سے دھکیل کر باہر کرنے کی ناکام کوشش کے بعد سرکاری پیادہ ان کو درخواست کرنے لگا کہ آپ یہاں سے ہٹ جائیں۔ اس نے کہا کہ میں ووٹ ڈالنے آیاہوں۔اس پر سارجنٹ نے کہا تو وہاں لائن لگی ہے وہا ں کھڑے ہو جاؤ۔غرض ایک افرا تفری جو ہر بار ہوتی ہے وہ اس بار بھی دیکھنے میں آئی۔ہم لائن میں کھڑے ہوئے تو تین چار فٹ کا فاصلہ آدھ گھنٹے میں طے کیا۔ کیونکہ لائن کو توڑ کر کسی اور آدمی کو کھڑا کر دیاجاتا۔کیونکہ دوسری طرف سے بھی ہنسی اور باریک سی درخواست کے لہجے میں مسکراہٹ کا سامنا تھا۔ سو ہم نے کہا چلو آہی جائے گا ہمارا نمبر بھی۔ کیونکہ بار بار کے فون کے بعد ہم نے تو ووٹ ڈالنے آنا ہی تھا۔ورنہ تو ارادہ یہی تھا کہ ووٹ ڈالنے سے کیاہوتا ہے ہم نہ ڈالیں تو بھی الیکشن نہیں رکے گا۔پھر جو آئے گا کرسی پر بیٹھے گا وہی پرانے انتظام کا ایک اور مہرہ ہوگا۔ مگر ہمیں تو جس نے فون کیا اور بار بار کیا اس کی خاطر رسمی کاروائی پوری کرنا تھی۔ یہاں کون کسی کو سچ مچ ووٹ کا حقدار سمجھ کر ووٹ ڈالتا ہے۔پارٹی بنیاد پر ووٹ پڑتے ہیں تعلقات کی بنا پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔یونہی یہ انتظام ایک نظام کے سہارے چل رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ مستقبل میں یہی پرانا پن نئے انداز میں نہ بدلے۔