روس کے بدلتے تیور

اندرون ملک تو سب سے اہم واقعہ حالیہ بلدیاتی انتخابات ہیں جن کے نتائج نے آنے والے وقتوں کے نقشے کو واضح کرنا شروع کردیا ہے اور لگتا یوں ہے کہ حزب اختلاف کے بیانئے کو عوام میں قبولیت ملنے لگی ہے۔ تحریک انصاف نے اب تک تمام جماعتوں کواکیلے میں خوب مقابلہ کیا ہے تاہم مہنگائی وہ عنصر ہے جس کاتوڑ حکومت نے کرنا ہوگا۔دیکھا جائے تو اب بھی تحریک انصاف کی مقبولیت برقرار ہے  اور اسکی وجہ چند ایسے منصوبے ہیں جن کے بارے میں ماضی میں کسی نے سوچا ہی نہیں تھا۔ صحت کارڈ کا اجراء بھی ان میں سے ایک ہے اسی نوعیت کے چند اور منصوبے اگر سامنے آئے تو آنے والے قومی انتخابات میں پارٹی پھر عوامی تائید حاصل کرسکتی ہے۔ اب کچھ بین الاقوامی امور کا تذکرہ ہوجائے۔افغانستان کے حالات سے پاکستان کامتاثر ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔  ماضی میں یہاں پر خانہ جنگی اور پھر اس کے تناظر میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ سے جس قدر نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑا شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک نے اٹھایا ہوا، یہ الگ بات ہے کہ امریکہ اوراس کے اتحادیوں نے الٹا پاکستان کو افغانستان کے حالات کیلئے مورد الزام ٹھہرایا، امریکہ کی اپنی کمزوریوں پرپردہ ڈالنے کی روش نئی بات نہیں۔اس حوالے سے جس پیش رفت کا تذکرہ مقصود تھا وہ نئی افغان حکومت کا پاسپورٹ کے عمل کا دوبارہ آغاز ہے۔ یہ اس حوالے سے خوش آئند ہے کہ پاکستان قریبی پڑوسی ہونے کے ناطے افغانستان کی طرف سے غیر قانونی طور پر آنے والے افغانوں کے معاملے سے متاثر ہوتا آیا ہے، انہی کالموں میں کئی مرتبہ یہ نکتہ اٹھایا جا چکا ہے کہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگنے کے بعد اب سرحد پر آمدورفت کو دستاویزی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ دنیا میں کوئی دوسرا ملک نہیں جہاں غیر ملکی بغیر دستاویز کے آسکتے ہیں، تو پھر پاکستان کیوں یہ استثنیٰ کسی کو دے۔  یہ اچھی بات ہے کہ طالبان حکومت نے اعلان کیا ہے کہ   تمام تکنیکی مسائل دور کر دئیے گئے ہیں۔ا س سے قبل طالبان حکومت نے بیرونی امداد کے بغیر اپنا پہلا بجٹ تیار کر لیا ہے جوافغانستان میں حالات کے معمول پر آنے کی نشانی ہے۔مغربی میڈیا رپورٹس کے مطابق ہزاروں روسی فوجی یوکرین کی سرحد پر تعینات کیے گئے ہیں، ماسکو میں مغربی ممالک کے خلاف بیانیہ عروج پر ہے اور کیوں نہیں ہوگا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بھی تو روس اور چین کے خلاف محاذ کھولا ہوا ہے۔ روس کو پیوٹن کی صورت میں ایک اچھا رہنما میسر آیا ہے جس نے اس ملک کو دوبارہ سپرپاور کی حیثیت دلانے میں کامیابی حاصل کی ہے‘ اس ہفتے سوویت یونین کے خاتمے کو 30 برس گزر چکے ہیں۔ صدر پوتن نے اسے 20ویں صدی کا سب سے بڑا جیو پولیٹکل سانحہ قرار دیا تھا۔ انھیں اس بات کا اب بھی افسوس ہے کہ سرد جنگ کا اختتام ماسکو سے زمین، اثرو رسوخ اور سلطنت کھونے کی صورت میں ہوا۔انھوں نے ایک حالیہ ریاستی ٹی وی پروگرام میں بتایا کہ سوویت یونین کا خاتمہ کیا تھا؟ یہ دراصل یہ تاریخی روس کا خاتمہ تھا۔ ہم نے 40 فیصد اراضی کھو دی۔۔۔ اکثر وہ چیزیں جو ہم نے پچھلے 1000 برس میں سمیٹی تھیں، کھو دی گئیں۔اس وقت یوکرین کاقضیہ گرم ہے۔ ایک بڑے روسی میڈیا ہاؤس راسیا سیگادنیا کے سربراہ کہتے ہیں کہ اگر یوکرین نیٹو کا حصہ بنتا ہے یا نیٹو اپنی فوجی تنصیبات یوکرین میں بناتا ہے تو ہم امریکہ کے سر پر بندوق رکھ دیں گے۔ ہمارے پاس اتنی فوجی صلاحیت موجود ہے۔وہ مزید کہتے ہیں کہ روس کے پاس دنیا کے بہترین ہتھیار بھی ہیں، ہائپرسانک بھی۔ وہ امریکہ اتنی ہی رفتار سے پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جتنی امریکی اور برطانوی ہتھیار ماسکو یا یوکرین تک پہنچنے کی۔ ا س وقت یوکرین کا مسئلہ سرد جنگ کے زمانے کے کیوبن میزائل تنازعے جیسا ہو سکتا ہے۔ چین اور امریکہ کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں اور تائیوان کے مسئلے پر چین امریکہ کو آنکھیں دکھا چکا ہے اب روس اور امریکی اتحادی یعنی نیٹوبھی آپس میں برسرپیکار ہونے کیلئے تیار نظر آتے ہیں۔