اگر تمھاری پلاننگ ایک سال کی ہے تو زمین میں چاول کی فصل اگا لو۔لیکن تمھاری منصوبہ بندی دس سال کی ہے کہ خوشحالی آئے اور رہے تو پھر شجرکاری کرو۔لیکن اگر تم سو سال کی پلاننگ لے کر آئے ہو اور چاہتے ہو کہ سو سال تک خوشحالی تمہارے قدم چومے تو پھر اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آشنا کرو۔یہ باتیں ہماری نہیں چین کے ماضی کے مشہور مفکر کنفیوشس کی ہیں۔ یہ اقوال اس عظیم خیالات کی حامل شخصیت سے منسوب ہیں۔یہ بھی اسی کا کہا ہوا ہے کہ ”اندھیرے کو برا بھلا کہنے سے زیادہ اچھا ہے کہ تم ایک شمع جلالو“۔ ظاہر ہے کہ شمع کی روشنی سے مراد تعلیم ہے۔اسی لئے تو علامہ اقبال نے بھی بچوں کے حوالے سے کہا ”زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری ”۔ دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے“۔”علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب“۔پھر اسی شمع کو لے کر آگے بڑھنے والے چند عظیم مرتبہ شخصیات میں سے احمد فراز نے اسی قولِ زریں کو شعر میں ادا کیا۔ انھوں نے کہا ”شکوہ ئ ظلمتِ شب سے توکہیں بہتر تھا۔ اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے“۔یہ شاعرادیب لوگ مفکروں کے خیالات لے کر اس پر شاعری کرتے رہتے ہیں۔پھر علم اور شمع یہ کوئی ان ٹچ باتیں تو نہیں کہ ایک نے کہیں تو دوسرا نہ کہہ سکے۔جو ذرا بھی سمجھ رکھتا ہے علم کو روشنی کہتا ہے۔کیونکہ روشنی سورج کی ہو یا سرمحفل جلنے والی موم بتی کی ہو ان کو فائدہ پہنچاتی ہے جو اس وقت وہا ں موجود ہوتے ہیں۔گویا ایک چراغ روشن ہو اور طاق کے اندر ہو تو وہ ماحول کو تاب و توانائی دے گا۔ کمرہ ہو تو کمرے کو روشن کرے گا۔پھر اندھیرے کو ایک شمع ہی کے جلنے سے شکست ہو جاتی ہے۔مفکروں کی ایک زنجیر ہوتی ہے جو پچھلے زمانوں سے چلی آتی ہے۔جس کی عمر ہزاروں سال ہوتی ہے۔ہزاروں سالوں میں بہت کم شخصیات پیدا ہوتی ہیں جو جہالت کے اندھیروں کو دور کرنے کی بات کرتی ہیں۔ گویا اقبال کے قول کے مطابق ”ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے۔بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا“۔شعر میں نرگس سے مراد نرگس کا پھول نہیں۔اس سے مراد نادان قوم ہے جو علم کی طرف راغب نہیں ہوتی۔ مگر اس میں صلاحیت ہو تی ہے جس کے بارے میں خود اس کو معلوم نہیں ہوتا۔یہ نرگس آنکھ کی شکل کی طرح پھول ہے مگر اس میں انسان کی آنکھ کی مانند دیکھنے کی طاقت نہیں ہوتی۔ یعنی یہ اپنی خوبصورتی کو خود نہیں دیکھ سکتا۔لیکن اس کو اس کے حسن سے آگاہ کرنے اور خوبصورتی کے معیار کو سمجھنے والی اگر کوئی دانا و بینا شخصیت چمن میں آنکلے۔پھر نرگس کے قریب آکر کہے کہ واہ یہ پھول بہت خوبصورت ہے۔تب جا کر پھول کو اپنی خوبصورتی کے بارے میں جانکاری حاصل ہوگی۔اس کو معلوم ہوگا کہ مجھ میں تو صلاحیتیں ہیں مگر مجھے خود معلوم نہ تھا۔ یہ تو توجہ دلانے والا متوجہ نہ کرتا تو مجھے اپنے بارے میں خود معلوم نہ ہو پاتا۔ماضی کے ہزاروں سال قبل کا مفکر سقراط تھا۔ جو دنیا میں سب سے بڑا سکالر گذرا ہے۔اس کے شاگرد اس کے مرتبہ و مقام سے عام لوگوں کی طرح آگاہ تھے۔ شاگرد استا دکی تعریف کرتے۔ کہتے کہ آپ بہت اچھی طرح سمجھاتے ہیں۔مگراس کا کہنا ہوتا کہ میں آپ کو بتلاتا نہیں ہوں۔میں توبس اتنا کرتا ہوں کہ جو آپ کے اندر ہے وہی نکال کر آپ کودکھادیتا ہوں۔ میں کچھ دیتانہیں۔میں توآپ کو آپ کے اندر چھپی ہوئی خاصیتوں سے آشنا کرتا ہوں۔یہ میرا کمال نہیں کمال تو آپ کے اندر پوشیدہ جو میرے بہانے سے باہر آ جاتاہے۔ہمارا ماضی گواہ ہے کہ علم کی شمع نے ایک قوم کو جو خام مال تھا اٹھا کر کندن کا چمکیلا اور خوش نما سونا بناڈالا۔پھراسی سونے کی دنیابھر میں قدر و قیمت ہوئی جس کو لینے کے لئے ہر ہاتھ آگے بڑھا۔ہمیں تو سوسال والا منصوبہ چاہئے۔جب ہم اپنے بچوں کو تعلیم دیں۔ جو پڑھنے لکھنے والے ہیں وہ لوگ کم از کم اتنا تو کر دیں کہ اپنے حصے کی ایک شمع جلالیں۔ اگر سب ایک ایک شمع بھی جلا لیں تو روشنی کس حدتک پھیل جائے گی اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔اپنی گلی محلے میں یا خاندان میں زندگی بھرفقط ایک ہی آدمی کو اخبار پڑھنا سکھلا دیں۔”نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے۔ذرانم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی“۔ یعنی ہر کوئی اگر اپنے حصے کاکام کرتا رہے تو زندگی کے زیادہ تر معاملات سلجھ جائیں گے۔ جس طرح ایک ایک اینٹ سے عمارت بنتی ہے اس طرح ہر ایک انفرادی کارکردگی کی مثال بھی ایک اینٹ کی ہے جس سے پورا معاشرہ پروان چڑھتا ہے۔ جس طرح مضبو ط اینٹ سے مضبوط دیوار بنتی ہے اس طرح مضبو ط انفرادی کردار سے ایک مستحکم اجتماعی رویہ یا معاشرہ بنتا ہے۔ تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ ہر فرد اپنی ذمہ داری کااحساس کرے اور اس کے بعد ذمہ داری کوپورا کرنے کیلئے بھر پور کوشش کرے کیونکہ کردار سے ہی سب کچھ بنتا ہے، محض گفتار سے نہیں۔