مہنگائی کا توڑ

حکومت کی طرف سے مہنگائی کو کنٹرول کرنے یا پھر عوام کو ریلیف دینے کے اقدامات اپنی جگہ اہم ہیں تاہم  اعداد و شمار اس کی گواہی دیتے ہیں کہ مہنگائی کو کسی کروٹ قرار نہیں اور یہ مسلسل بڑھ رہی ہے۔  مہنگائی غریب طبقے کو معاشی لحاظ سے بُری طرح جھنجوڑ (متاثر کر) رہی ہے جس کے نتیجے میں عام آدمی کی قوت ِخرید تیزی سے کم ہوئی ہے۔ اسی طرح چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار بھی اس کی زد میں آئے ہیں کیونکہ ان کے پاس نہ تو کسی ملٹی نیشنل کمپنی جیسا نیٹ ورک ہوتا ہے‘ نہ سپلائی چین اور نہ ہی فنانسنگ کی کوئی سہولت میسر ہوتی ہے لہٰذا مہنگائی کے باعث متعدد چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار معیشت سے نکل جاتے ہیں اور بڑی کمپنیاں باقی رہ جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے منافع میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سٹیٹ بینک کا اپنے ”بینک مانیٹری پالیسی بیان“ میں کہنا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ‘ ایندھن‘ مکان کے کرائے‘ دودھ اور خوردنی تیل کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران مہنگائی کی شرح نو سے گیارہ فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔مالی سال دوہزاراٹھارہ میں جب پاکستان تحریک انصاف برسراقتدار آئی‘ تو اس وقت مہنگائی کی عمومی شرح (جنرل انفلیشن ریٹ) چار اعشاریہ دو (4.2) فیصد تھی۔ غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافے کی شرح تین اعشاریہ آٹھ (3.8) فیصد اور نان فوڈ انفلیشن چاراعشاریہ چار (4.4) فیصد تھی۔ تحریک انصاف حکومت کے قیام کے بعد مالی سال دوہزاراُنیس میں مہنگائی کی شرح چھ اعشاریہ آٹھ (6.8) فیصد رہی جس میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ چاراعشاریہ آٹھ (4.8) فیصد ہوا۔ بعدازاں مالی سال دوہزاربیس میں مجموعی مہنگائی کی شرح دس اعشاریہ سات (10.7) فیصد رہی اور دیہی علاقوں میں فوڈ انفلیشن تیرہ اعشاریہ چھ (13.6) فیصد تھی۔ تیس جون دوہزاراکیس کو ختم ہونے والے مالی سال میں مجموعی مہنگائی کی شرح آٹھ اعشاریہ نو (8.9) فیصد رہی جبکہ دیہی علاقوں میں فوڈ انفلیشن تیرہ اعشاریہ ایک (13.1) فیصد دیکھی گئی۔ سال دوہزاراکیس میں مہنگائی (انفلیشن) جنوری کے علاوہ کسی بھی مہینے میں آٹھ (8) فیصد سے کم نہ ہوئی جبکہ اپریل میں گیارہ اعشاریہ ایک (11.1) فیصد‘ مئی میں دس اعشاریہ نو (10.9) فیصد اور نومبر میں گیارہ اعشاریہ پانچ (11.5) فیصد تھی مگر سال بھر میں اشیائے خوردونوش سے متعلق مہنگائی (فوڈ انفلیشن) دوہری ہندسے یعنی دس (10) فیصد سے زائد رہی اور یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جس کی وجہ سے عام آدمی متاثر ہوا کہ اِس کے استعمال کی بنیادی ضروریات کی قیمتیں دوگنا بڑھ گئیں اور قیمتیں بڑھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مہنگائی کی ایک وجہ کورونا وبا کے سبب عالمی اقتصادی تبدیلیاں ہیں تو پاکستان میں اِس کی دوسری وجہ خود ساختہ مہنگائی بھی ہے۔۔اگر عالمی تبدیلیوں کی وجہ سے مہنگائی کے اثرات کو کنٹرول کرنا مشکل تھا تو پاکستان کی مقامی اور زرعی پیداواری اجناس کی قیمتوں  کنٹرول کرنے کے ذریعے کسی حد تک حالات کو خراب ہونے سے بچایا جاسکتا تھا۔ ’چینی‘ آٹے اور پیٹرولیم مصنوعات کے مافیاز  کے خلاف جو کاروائیاں کی گئیں ان کے اثرات جلدہی نظر آنے لگے تاہم اس عمل کو مسلسل جاری رکھنا ضروری ہے  تاکہ آئندہ بھی عوام کو ان کی ضروریات محروم رکھنے کی سازش کرنے والوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے مہنگائی سے متعلق مذکورہ اعداد و شمار سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ”پاکستان ایک زرعی ملک“ ہے لیکن زرعی ملک ہونے کے باوجود بھی یہاں کھانے پینے کی اشیا (مقامی خوردنی اجناس) کا ایک بڑا حصہ درآمدکیا جاتا ہے۔اس سلسلے میں فوری طور پر ایسی پالیسی اپنائی جائے کہ وہی اشیاء درآمد کی جائیں جو انتہائی ضروری ہوں۔