سال دوہزار اکیس کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں غیرمعمولی کمی ہوئی جس کی وجہ سے ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ تحریک انصاف کے برسرِ اقتدار آنے کے وقت (اگست دوہزاراٹھارہ) ایک امریکی ڈالر کے عوض 120روپے ملتے تھے جس میں پچاس روپے سے زائد اضافہ ہو چکا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے گزشتہ چالیس ماہ کے دوران روپے کی قدر میں تیس اعشاریہ پانچ (30.5) فیصد کمی ہوئی ہے۔ 1971ء میں جب ملک دولخت ہوا تو اُس وقت کی غیریقینی کی صورتحال کے باعث پاکستانی روپے نے تاریخ میں سب سے بڑی گراوٹ دیکھی تھی جس کے بعد موجودہ حکومت میں روپے کی قدر غیرمعمولی کم ہوئی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کا فیصلہ صرف اور صرف عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی کڑی شرائط پوری پر پورا اُترنے کیلئے کیا گیا ہے اور اس کا ملکی معاشی صورتحال سے تعلق نہیں ہے۔ روپے کی قدر میں ساڑھے تیس فیصد جیسی غیرمعمولی کمی سے مہنگائی میں لامحالہ براہئ راست اضافہ ہوا ہے کیونکہ پاکستان جہاں پہلے ہی بڑے پیمانے پر اجناس اور ایندھن درآمد کرتا تھا وہاں حکومت نے چینی اور آٹا بھی درآمد کیا تاکہ ملک میں چینی اور آٹے کی قیمتوں کو کم کیا جا سکے اور یہ ہدف بڑی حد تک حاصل بھی ہوا تاہم آٹے اور چینی کی درآمدات سے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہوئے۔ روپے کے مقابلے میں اگر دیگر کرنسیوں کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ بھارتی روپے کی قدر دوہزار اٹھارہ میں 70.09 روپے فی ڈالر جبکہ 2021ء میں 74.54روپے فی ڈالر تھی۔ اسی طرح دوہزاراٹھارہ میں بنگلادیشی ٹکے کی قدر 85.76 ٹکہ فی ڈالر اور اِس وقت بنگلادیشی ٹکے کی قدر 85.9 ٹکہ فی ڈالر ہے۔ خطے کے اِن دونوں ملکوں (بھارت اور بنگلہ دیش) کی کرنسیوں کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی روپے نے دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں بُری کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ گزشتہ بیس برس میں روپے کی قدر میں آنے والے اُتار چڑھاؤ سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم شوکت عزیز کے وقت ایک ڈالر قریب ساٹھ روپے کا تھا۔ دوہزارآٹھ میں جب پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت قائم ہوئی اس وقت پاکستان طویل وقفے کے بعد دوبارہ ”آئی ایم ایف پروگرام“ کا حصہ بنا اور ایک ڈالر 80روپے کا ہوگیا۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ایک ڈالر 89.5 روپے کا رہا۔سال دوہزارتیرہ میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے حکمرانی کی باگ ڈور سنبھالنے سے قبل قائم عبوری حکومت میں روپے کی قدر 107.5روپے فی ڈالر تک گرچکی تھی۔ جون دوہزارچودہ میں سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار روپے کی قدر کو واپس اٹھانوے روپے فی ڈالر تک لے آئے تاہم دوہزارچودہ میں ایک ڈالر ایک سو پانچ روپے کا ہوگیا۔ نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے سے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا اور مفتاح اسماعیل کے وزیرِ خزانہ بننے کے بعد روپے کی قدر ایک سو اٹھارہ روپے فی ڈالر تک جا پہنچی۔ شوکت ترین کے مطابق روپے کی قدر 164روپے فی ڈالر کے قریب ہونی چاہئے۔ سٹے باز ڈالر پر ایک بڑی رقم یعنی دس سے پندرہ روپے لے جارہے ہیں تاہم نہ سٹیٹ بینک اور نہ ہی وزارتِ خزانہ اب تک ان سٹے بازوں کا پتا لگا پائی ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی ہے۔ لائق توجہ ہے کہ ادویات‘ چینی اور آٹے جیسے بنیادی ضروریات کی طرح ”روپے کی ناقدری“ کا سلسلہ بھی جاری رہے گا اور اِس کی وجہ سے عام آدمی کی قوت ِخرید کم ہوتی چلی جائے گی۔عوام کو تو اس سے غرض ہے کہ ان کو اشیاء ضرورت سستے داموں دستیاب ہوں وہ معاشی اصلاحات اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے نتائج کو اسی پیمانے پر ناپتے ہیں۔