سکول کی چھٹیاں فلاں تاریخ سے ہو رہی ہیں۔اعلیٰ سطحی اجلاس ہونے جا رہا ہے۔اجلاس ہو چکا ہے۔فیصلہ روک دیا گیا ہے۔فیصلہ کل کے اجلاس میں ہوگا۔ بریکنگ نیوز پر ایک اور ہنگامی خبر کی یلغار ہے۔سوشل میڈیا چینلوں پر اس قسم کی خبروں کی بھرمار ہے۔طلباء کو خوشخبری دینے کی کوشش بیکارہے۔کیونکہ اگلے اجلاس میں اعلان ہوتا چونکہ سردی کی شدت میں کمی آ گئی ہے اس لئے جلدچھٹیاں دینے کا معاملہ منسوخ ہو گیا ہے۔بچوں کے ننھے منے جذبات کے ساتھ خوب کھیل رہے ہیں۔ بلکہ سکول سکول کھیلا جا رہاہے۔پھر میں نے جانا کہ آخر چھٹیاں دینے کااعلان خوشخبری کیوں ہے۔لائق بچوں نے بھی اس پر خوشی کا اظہار ہی کیا۔اس لئے کہ ان کو صبح صبح اٹھنا ہوتا ہے۔اس برف جما دینے والی سردی میں یونیفارم تبدیل کریں گے۔پھر جلدی جلدی ناشتہ کرو اور باہر نکلو تو دھند میں لپٹی ہوئی صبح کی ہواؤں کو چیرتے ہوئے سکول کی جانب بڑھتے چلو۔ٹھنڈمیں دانت بج رہے ہوں مگر سکول جانا ہے۔سرکاری ہو یا پرائیویٹ سکول اس کا فرق مٹ جاتا ہے۔بلکہ میں کہوں پرائیویٹ سکول والے بچوں کو چھٹیوں کی زیادہ خوشی ہو گی۔کیونکہ وہاں ان کو زیادہ کام کرنا پڑتاہے۔بچوں کو اگر چھٹیوں کی اطلاع مل جائے تو واقعی خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔کیونکہ انھوں نے چھٹیوں سے پہلے ہی پروگرام بنا رکھے ہوتے ہیں۔کسی نے نانی اماں کے گھر جاناہوتا ہے تو کسی نے اپنے گھر والوں کے ساتھ اس برف باری کے موسم میں آسمان سے گرنے والی سفید روئی کے گالوں کا نظارہ کرناہوتا ہے۔ پھر ناشتہ تک میں جوڑے گئے آئیٹم کے بارے میں بھی پہلے سے پلاننگ ہوتی ہے۔کسی نے انڈا کھانا ہے تو کسی نے انڈا فرائی کروانا ہے کسی نے آملیٹ پر ہاتھ صاف کرنا ہے۔کسی نے حلوہ پوڑی کی تیاپانچہ کرنا ہے اور کسی نے اپنے لئے بھائی سے کہہ کر اپنے اپنے پیسے دے کر سری پائے منگواناہوتے ہیں۔ہم اگر بچے نہیں تو سینے میں بچوں سادل ضرور رکھتے ہیں۔پھر بچپن کی یادیں بھی اس حوالے سے یہ تحریر لکھنے میں ہماری مدد کر رہی ہیں۔ پڑھا تو ہم نے خاک نہیں تھا۔جانے کیسے پڑھ لیا اور لکھ لیا اور پڑھانے لکھانے لگے۔اسی سے تو قدرت کے نرالے کاموں کا اندازہ ہوتا ہے۔پھر بچوں کی شادی شدہ بہن دو ایک دن کے لئے مہمان آئی ہو تو اور ہی مزے ہیں۔پھر تو فلمیں اور کھانے پینے اور گپ شپ اور بہن کے بچوں کے ساتھ کھیلنا کھالنا ہوتا ہے۔اسی لئے چھٹیاں تو بچوں کے لئے واقعی خوش خبری ہیں۔پھر ایک فیصد سے بھی کم بچے ہوں گے جو اس یخ ککر ٹھنڈ کے موسم میں سکول جانے پر دل سے راضی ہوں گے۔ یہ تو بچوں کی نفسیات ہے۔ اس پر کوئی دوسری رائے نہیں کہ چھٹیوں سے بچے خوش ہوتے ہیں۔بلکہ بعض ماں باپ بھی خوش ہوتے ہیں کہ چلو صبح سویرے اٹھنے اور ان کو سڑک کے کنارے سردی کی ٹھنڈی ہوا کی لہروں کے سنگ کھڑے ہونے سکول گاڑی کا انتظار کرنے سے نجات مل گئی۔وزیروں نے کہا بستہ کم کریں گے۔مگرجو کہا وہ سنا نہیں جو سنا وہ سن کے اڑا دیا۔دو دو فرلانگ تک ان بچوں کو پیدل چلنا ہوتا ہے۔کمر پر بستہ لاد کر ان کی کمر ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔ مگر وزیروں کا ابھی تک دل نرم نہیں ہواکہ بستہ کے بوجھ کو کم کردیں۔ بلکہ ہر بچے کے ساتھ ایک ایک نوکر ہو جوسکول کے گیٹ پر انھیں چھوڑ کر آئے۔ایسا ہوگا تو پھر بچوں کو سکول کی چھٹیاں ہوجانے سے خوشی تو ہوگی۔باہر ملک تو نہیں کہ وہاں بستہ توسرے سے نہیں۔بس لیپ ٹاپ ہے اور بچے پڑھ رہے ہیں۔ جانے ہم نے بستوں کے علاوہ اور کتنے بوجھ کاندھوں کمر اور دل ودماغ پر لادکھے ہیں۔وہ بوجھ جو ہم کسی او رکے کاندھے پر رکھ بھی نہیں سکتے۔ کیونکہ یہ سامان نہیں کہ دوسرے کو اٹھوا دیا او رآسانی ہوجائے۔یہ تو ”جس پہ آئی اسی پہ آئی ہے“۔اپنا اپنا بوجھ اور اپنا اپنا کاندھا ہے۔خود اٹھانا ہے اور کسی نے مدد کرنا بھی ہو تو وہ نہیں کرسکے گا۔ساتویں کلاس میں بارہ کتابیں ہیں پھر کاپیاں الگ ہیں۔ بچے چھٹیوں پر خوش نہیں ہوں گے کیا رونا رلانا کریں گے۔بچے سکول میں داخل ہو تے ہیں کہ ہم بڑے ہو کر کچھ بنیں گے۔مگر سکول میں ان کی اتنی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کہ وہ کچھ بننے کے خواب ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔