باکردار نمائندوں کا انتخاب

بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع میں 19 دسمبر کو رائے دہندگان نے اپنے بلدیاتی نمائندے منتخب کرلیے۔ دوسرے مرحلے میں باقی 18 اضلاع میں 16 جنوری کو انتخابات ہوں گے۔ پہلے مرحلے میں انتخابات زیادہ تر پرامن اور خوشگوار طریقے سے مکمل ہوگئے۔ ان اضلاع کے عوام نے جو نمائندے منتخب کیے وہ اگلے چند برسوں میں ان کے فائدے یا نقصان کے فیصلے کیا کریں گے۔ دوسرے مرحلے میں بھی رائے دہندگان بڑی تعداد میں نکل آئیں۔ سردی اور ووٹ ڈالنے کیلئے جانے میں مشکل یا تکلیف انہیں روک پائے اور نہ جمہوری تبدیلی کے تصور سے مایوسی ان کے ووٹ ڈالنے میں مانع ہو اور انہیں بہترین نمائندے منتخب کرلینے چاہئیں۔پارٹیوں کے جوشیلے کارکنوں اور مفادپرستوں کی بات دوسری ہے وہ تو ہر حالت میں اپنی پارٹی کے یا مخٰصوص امیدواروں کی حمایت کریں گے۔ ہمارے مخاطب غیر جانبدار رائے دہندگان ہیں جو اکثریت میں ہوتے ہیں مگر اپنی کاہلی، مایوسی اور انتخابات سے لاتعلقی کی وجہ سے ناموزوں امیداواروں کے انتخاب میں آلہ کار بن جاتے ہیں۔ووٹر عام طور پر ووٹ ڈالتے وقت امیدوار کے ذاتی کردار، اس کی پارٹی کے منشور و کارکردگی یا اپنے ذاتی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرتے ہیں۔پارٹی سسٹم جمہوری سیاست کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ اس نظام میں بے شک کمزوریاں ہوں گی لیکن ہمیں پارٹی سسٹم کو مضبوط کرنا ہوگا۔ تاہم اگر رائے دہندگان پارٹیوں کے دیانت دار امیدواروں کو منتخب اور مشکوک کردار اور نااہلیت کیلئے مشہور امیدواروں کو مسترد کرتے رہیں تو رفتہ رفتہ پارٹیاں مجبور ہوجائیں گی اور اچھے لوگوں کو ہی امیدوار بنانے لگیں گی۔دوسری رائے یہ ہے کہ پارٹی چاہے جو بھی ہو مگر نوکریاں اور ضرورت مندوں کو مالی امداد دینے والے اور حلقوں کے ساتھ ذاتی رابطہ رکھنے والے امیدواروں کی حمایت کرنی چاہئے۔ لیکن اس پر اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ ایک  بدعنوان شخص بھی کرتا ہو تو پھر کیا ہوگا؟ ظاہر ہے ملازمت، مالی امداد اور انفرادی ترقیاتی کام کی بنیاد پر حمایت خود غرضی اور مفاد پرستی ہے۔ ترقیاتی کام کیلئے کسی کی حمایت نہ کریں کیوں کہ اکثر دولت مند امیدوار پولنگ سے پہلے ہی اپنی تجوریوں کے منہ کھول لیتے اور ترقیاتی کام و مالی امداد کر لیتے ہیں۔ رائے دہندگان کی جانب سے خود غرضی اور مفاد پرستی پر مبنی یہی غلط ترجیحات پاکستان میں ناموزوں قیادت کے انتخاب اور بڑھتی ہوئی بدعنوانی، پسماندگی اور غربت کے بنیادی اسباب میں سے ہیں۔ ان بنیادوں پر کسی امیدوار کی حمایت کرنے سے کسی کو ذاتی یا گروہی فائدہ تو مل سکتا ہے لیکن اس سے ملک کے وسائل اور عوام کے فیصلے  غلط لوگوں کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں۔تیسری رائے یہ ہے کہ امیدوار کے ذاتی کردار، اس کی قابلیت، فہم و فراست اور اہلیت کو دیکھتے ہوئے اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ ان جماعتوں کے امیدوار ہوں جن کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے تو ایسے میں رائے دہندگان کیا کریں؟ پھر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ پارٹی ڈسپلن ایک حقیقت ہے۔ اگر کوئی اچھا امیدوار منتخب ہوجائے اور اس کی پارٹی کسی غلط اقدام کا فیصلہ کرتی ہے تو یا تو اسے یہ فیصلہ ماننا پڑے گا یا اسے مخالفت کرکے پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ نمائندہ باکردار اور اچھا انسان ہے تو وہ یقینا پارٹی میں کسی غلط فیصلے کی مزاحمت کرے گا۔ اب اگر نمائندوں کی اکثریت باکردار اور اس کے ہمنوا ہوں گے تو پارٹی میں یہ غلط فیصلہ نہیں ہو پائے گا۔ اور اگر وہ اکیلا ہو تو وہ اپنے حد تک اس غلط فیصلے کو روکنے کی کوشش کرکے بری الذمہ ہوجائے گا۔ اب اس کے بعد یا تو وہ پارٹی کے اجتماعی فیصلے کو قبول کرکے پارٹی میں رہے گا یا استعفیٰ دے گا یا اسے نکال دیا جائے گا۔ یہ تمام صورتیں عوام کے شعور میں اضافے اور دیانتدار قیادت کے انتخاب کی طرف سفر کو تیز کرسکتی ہیں۔ آخری دو صورتوں میں تو عوام کے پاس دوبارہ انتخاب کیلئے رجوع کیا جائے گا۔ اس لیے بہتر صورت یہ ہے کہ ووٹ ڈالتے وقت دیکھیں کس پارٹی کا امیدوار ذاتی صلاحیت، قابلیت اور کردار میں دوسروں سے بہتر ہے۔ تمام نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اور صرف ایمانداری، خلوص، قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر ووٹ دیں۔ یوں نظام میں باکردار منتخب نمائندے اکثریت میں آ جائیں گے۔ یہ ملک کے سیاسی اور معاشی منظر نامے میں نرم و خاموش انقلاب کے برابر ہوگا اور پارٹیوں کی قیادت بدعنوانوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اہل اور ایماندار ہاتھوں میں ہوگی۔یاد رکھیں ووٹ ایک مقدس امانت ہے اور اس کا استعمال ایک شہری کا فرض ہے۔ کسی کو ووٹ دے کر، ہم اس کے کردار اور صلاحیتوں کی گواہی دیتے ہیں اور اسے اپنی طرف سے فیصلہ کرنے اور کام کرنے کا اختیار دیتے ہیں۔ ووٹ دینے والے کو ہم اپنا وکیل بھی بناتے ہیں یعنی وہ اسمبلی میں ہماری جگہ ہمارا مقدمہ لڑتا ہے۔ ظاہر ہے ہم کسی ایسے شخص کو وکیل بنانے سے تو رہے جسے ڈرایا، خریدا اور دھوکہ دیا جا سکتا ہو، جو محنت نہیں کرتا اور سمجھنے و سمجھانے کی صلاحیت سے عاری ہو۔