اومیکرون کا خطرہ

کورونا وبا کے حملے ابھی ختم نہیں ہوئے اگر چہ پاکستان میں اس کی شرح کافی حد تک کم ہے تاہم اب اس کی ایک اور قسم نے خطرات پیدا کئے ہیں اور یہ زیادہ خطرناک قسم ہے۔کراچی میں اومیکرون کے مزید 6 مشتبہ کیسز سامنے آگئے ہیں۔کئی ممالک میں تیزی سے پھیلنے والے کورونا وائرس کے نئے ویرینٹ اومیکرون کے کراچی میں مزید 6 مشتبہ کیسز کا سامنے آنا خطرے کی گھنٹی ہے۔محکمہ صحت کے ذرائع کے مطابق شہر قائد میں کورونا وائرس کے نئے ویرینٹ اومیکرون کے مشتبہ تمام افراد کے جینوم سیکویسنگ کیلئے نمونے نجی ہسپتال پہنچا دیئے گئے ہیں۔محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ تمام افراد میں کورونا کی تصدیق ہوگئی ہے، 4 افراد جنوبی افریقا اور 2 برطانیہ سے کراچی پہنچے ہیں۔واضح رہے کہ 9 دسمبر کوپاکستان میں کورونا وائرس کے نئے ویرینٹ اومیکرون کا پہلا کیس سامنے آیا تھا اور ادارہ صحت (این آئی ایچ) کی جانب سے تصدیق بھی کی گئی تھی جب کہ کچھ روز پہلے بھی ایک اور امیکرون کا کیس بھی رپورٹ ہوا تھا اور متاثرہ شخص ہسپتال سے فرار ہوگیا تھا، بعد ازاں اسے دوبارہ قرنطینہ کردیا گیا تھا۔ دیکھا جائے تو کورونا کے حوالے سے حکومتی اقدامات تو تسلی بخش ہیں تاہم عوام کا رویہ نہ پہلے بدلا ہے اور نہ اب۔ ضروری ہے کہ اومیکرون وائرس سے بچاؤ میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کیاجائے۔ورنہ جیتی بازی ہارنے میں دیر نہیں لگتی۔اس وقت وطن عزیز میں سیاسی اتارچڑھاؤاور گرما گرمی کا دور ہے اور جہاں حکومت نے آنے والے انتخابات کے مد نظر اپنے ایجنڈے کو تکمیل تک پہنچانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں وہاں حزب اختلاف نے بھی کمر کس لی ہے تاہم یہ بات توطے ہے کہ دونوں طرف یہ احساس موجود ہے کہ عوام کی رائے کو سب پر فوقیت حاصل ہے اور اس مقصد کیلئے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے اور ان کی رائے کواپنے لئے موافق بنانا ضروری ہے۔ اب بات کرتے ہیں عالمی منظرے نامے کی جہاں چین نے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔چین کی بڑھتی دفاعی قوت پر مغربی ممالک کی تشویش کس حد تک درست ہے؟ مغربی میڈیا نے اس حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق چین تیزی سے اپنے ہلاکت خیز جدید ہتھیاروں میں اضافہ کر رہا ہے۔ میزائل ٹیکنالوجی، جوہری ہتھیاروں اور مصنوعی ذہانت میں چین کی تیز رفتار پیش رفت نے بہت سے ایسے مغربی مبصرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے جن کا ماننا ہے کہ فوجی طاقت کے عالمی توازن میں بڑی تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔صدر شی جن پنگ نے چین کی مسلح افواج کو 2035 تک انتہائی جدید خطوط پر استوار کرنے کا حکم دیا ہے۔ صدر شی کے اس حکم کے مطابق چینی مسلح افواج کو2049 تک عالمی پائے کی فوجی طاقت بننا چاہئے، جو جنگیں لڑنے اور جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔یہ ایک بہت بڑا اعلان ہے اور چین اس ہدف کو حاصل کرنے کے راستے پر کامیابی سے گامزن ہے۔لندن میں رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے ویرل نووینس کے مطابق چین کے جوہری ہتھیار ہی سب سے اہم مسئلہ ہیں۔دونوں فریقوں میں اعتماد کی بہت بڑی کمی ہے اور بات چیت اس سطح کے قریب نہیں ہے جس کی ضرورت ہے۔ اس کے آگے بہت بڑے خطرات ہیں۔ہائپرسونک میزائل آواز سے بھی پانچ گنا زیادہ تیز رفتار کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ بین الابرِاعظمی بیلسٹک میزائلوں (آئی سی بی ایم) جتنے تیز تو نہیں ہوتے تاہم دورانِ پرواز ان کا سراغ لگا پانا اتنا مشکل ہوتا ہے کہ کئی فضائی دفاعی نظام ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ ہائپرسونک میزائل خاص طور پر طیارہ بردار بحری جہازوں کا دفاع کرنا زیادہ مشکل بنا دیتے ہیں۔امریکی بحریہ نے پیش گوئی کی ہے کہ 2020 اور2040 کے درمیان چینی بحریہ کے جہازوں کی کل تعداد میں تقریبا 40 فیصد اضافہ ہو گا۔جہاں تک چین کے دنیا میں اثر رسو خ کی بات ہے تو اس میں بے تحاشا اضافہ ہوہے اور اب ایشیاء سے لے کر افریقہ اور یورپ تک بہت سے ممالک چین کے زیر اثر آگئے ہیں۔ خود امریکہ کا چین کے ساتھ تجارت کا حجم اس قدر ہے کہ وہ چین کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔