سالنامہ: حصص مارکیٹ

سال 2021ء کے دوران حصص (سٹاک) مارکیٹ کی صورتحال اور کارکردگی متاثرکن نہیں اور مسلسل گراوٹ کی وجہ سے عوام سرمایہ کاری پر زیادہ منافع حاصل نہیں کرسکے۔ جنوری دوہزاراُنیس میں کراچی سٹاک ایکسچینج (KSE) ون ہنڈرڈ (100) انڈیکس 37795 پوائنٹس تھا جبکہ اگست میں 28764 کی سطح پر آگیا تاہم جنوری 2020ء تک سٹاک مارکیٹ کی صورتحال سنبھل گئی اور انڈیکس 43 ہزار پوائنٹس سے زائد کی سطح تک اوپر گیا مگر یہ تیزی زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی اور انڈیکس میں تیزی سے گراوٹ ہوئی۔ مارچ 2020ء میں انڈیکس ستائیس ہزار دوسو پوائنٹس کے ساتھ موجودہ حکومت کے دور میں کم ترین سطح پر تھی بعدازاں انڈیکس میں تیزی سے اضافہ ہوا اور پندرہ جون دوہزاراکیس کو انڈیکس موجودہ حکومت کے دور میں اپنی بلند ترین سطح یعنی اڑتالیس ہزار تک پہنچ گیا۔ قابل ذکر ہے کہ (چوبیس مارچ دوہزارسترہ کو) باون ہزار سے زائد پوائنٹس کے ساتھ گزشتہ حکومت نے اپنے دور کی بلند ترین سطح حاصل کی تھی چنانچہ موجودہ حکومت کے دور کی بلند ترین سطح بھی اب تک گزشتہ حکومت کے دور کی بلند ترین سطح سے تقریباً چار ہزار پوائنٹس کمی کا شکار ہے۔حصص کی مارکیٹ کا تعلق ملک کے سیاسی حالات سے بھی ہے کہ جیسے جیسے سیاسی حالات میں تبدیلیاں ہوتی ہیں ویسے ویسے حصص مارکیٹ بھی ردعمل کا مظاہرہ کرتی ہے اور اگر ہم دسمبر کے مہینے کا ذکر کریں تو یہ سٹاک مارکیٹ کیلئے ہمیشہ ہی سے مشکل ثابت ہوتا ہے۔ رواں دسمبر بھی ’سٹاک ایکس چینج‘ حاصل کردہ اضافے (قدر) کو برقرار نہیں رکھ پائی ہے۔ تیرہ دسمبر کے روز ”پاکستان سٹاک ایکس چینج‘ میں پانچ سو اُنیس پوائنٹس کا خسارہ ہوا تھا جس کے بعد مارکیٹ نو ماہ قبل والی حالت کی طرف لوٹ گئی ہے۔ حصص مارکیٹ سے متعلق ماہرین کے بقول ”ٹیکسوں میں مجوزہ اضافے‘ روپے کی قدر میں مسلسل کمی اور سٹیٹ بینک کی جانب سے بنیادی شرحِ سود میں متوقع اضافے کی وجہ سے سٹاک ایکسچینج گراوٹ کا شکار ہے۔“ نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے پاکستان سٹاک ایکس چینج کیلئے مالی سال دوہزار اکیس خوش آئند رہا۔ رواں سال مجموعی طور پر بتیس کمپنیوں نے سٹاک ایکس چینج کے ذریعے 80 ارب روپے کا سرمایہ حاصل کیا۔ ان میں وہ 8 نئی کمپنیاں بھی شامل ہیں جنہوں نے سٹاک مارکیٹ میں اندراج کروا کر بیس ارب سترہ کروڑ روپے کا سرمایہ اکٹھا کیا۔ موجودہ حکومت کے دور میں یہ اصلاح سامنے آئی ہے کہ پاکستان سٹاک ایکس چینج میں کمپنیوں کی رجسٹریشن کیلئے ”سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن“ نے گروتھ انٹرپرائز مارکیٹ بورڈ (جس کو ’جیم بورڈ‘ بھی کہا جاتا ہے) متعارف کروایا ہے۔ اس کے ذریعے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار‘ نئی قائم ہونے والی کمپنیوں اور سٹارٹ اپس کیلئے سٹاک ایکس چینج کے دروازے کھل گئے ہیں۔ اب تک جیم بورڈ کے ذریعے دو کمپنیوں کی لسٹنگ ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ کمپنیوں کو حصص کی اوّلین عوامی فروخت کے بجائے سٹاک ایکسچینج میں براہئ راست لسٹنگ کی سہولت بھی اسی سال متعارف کروائی گئی‘ اسٹاک ایکس چینج کی ویب سائٹ پر جاری کردہ تجزئیات کے مطابق ”روپے کی قدر میں کمی سے پاکستان سٹاک ایکسچینج کی کیپٹیلائزیشن پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ مارکیٹ کیپیٹلائزیشن جو سو ارب ڈالر سے زائد ہوچکی تھی وہ کم ہوکر لگ بھگ پینتالیس ارب ہو چکی ہے۔“ پاکستان کی حصص مارکیٹ کے کورونا وبا سے متاثر ہونے کا دوسرا سال بھی اختتام پذیر ہو رہا ہے اور اِس دوسرے سال کے دوران بھی سٹاک ایکس چینج سے اچھی خبروں کا انتظار ہی رہا۔ مستحکم قومی معاشی و اقتصادی پالیسی کے عکس سٹاک مارکیٹ میں دیکھا جا سکتا ہے‘ جہاں اندرون ملک سے زیادہ بیرون ملک سے سرمایہ کاروں کا رجحان (اعتماد) دیکھ کر قومی معاشی حکمت عملیوں کی کامیابیوں سے متعلق رائے قائم کی جاتی ہے اور یقینا حکومت اِن پہلوؤں پر غور کرے گی کہ پاکستان کے مستحکم معاشی و اقتصادی منظرنامہ جھلک سٹاک مارکیٹ میں بھی دکھائی دینی چاہئے۔