حیرانی ہے ازحد پریشانی ہے۔یہ کیا نادانی ہے۔نا سمجھی اور کج فہمی کی ارزانی ہے۔حیرانی اس لئے کہ اب اتنی تن آسانی ہے۔اُس علاقے کے شہری اس بات کے شکایتی تھے کہ یہاں سرکاری لوگ متوجہ نہیں ہوتے۔پوچھو کیوں۔کہتے ہیں کہ عرصہ دراز سے کوڑے کے شاپروں کا ڈھیر لگا ہے۔جیسے شہری اس ڈھیر پر چارپائی بچھا کر سو گئے ہیں۔چنگیز خان کی طرح ظلم کر کے بے فکرے ہو کر نیند میں کھوگئے ہیں۔پھر یہاں ایک نہیں دو ڈمپر لا کر ڈھیر کر دیئے گئے۔اتنے بڑے کہ جس میں پورے مہینے کا گند سما جائے۔مگر وہاں سے گذر ہو تو دیکھو یہ ڈمپر ویسے کے ویسے جیسے رکھے گئے تھے ایسے خالی ڈھنڈار پڑے ہیں۔تو سوال ہے پھر یہ چار ہفتوں کا گند گریل کہا ں گیا۔جواب آسان ہے۔کوئی علم ریاضی نہیں کہ بہت سر مار کرالجھی ہوئی ڈور کاسرا ہاتھ نہ آئے۔ جناب عالی سارا کوڑا ان دو مختلف ڈمپروں کے باہر گرا ہوا ہے۔ سڑک کنارے رکھے گئے تھے۔کیونکہ اس کے لئے جگہ کی تلاش ایک مسئلہ تھا۔مگر مسئلہ حل ہونا ہی تھا۔کیونکہ سڑک تو کسی کی ذاتی جاگیر نہیں۔ہاں روڈ ایک طر ف سے بند ہوگئی۔مگر چلو ایک بہت بڑے مسئلے کے حل کے لئے چھوٹا مسئلہ پیدا ہوجانا ہمارے ہاں کا مزاج ہے۔لیکن افسوس گند کے بڑے کوڑے دان یونہی خالی پڑے ہیں۔ پھر کوڑا کرکٹ ان کے چار اطراف زمین پر پڑا ہے۔حیرانی او رپریشانی کہ جو لوگ کوڑے کے شاپر یہاں تک لاتے ہیں ڈمپر کے اندر کیوں نہیں گرا پاتے۔کیا یہ سر سے اونچے ہیں۔ کیا ان کے اندر جھانکنے کے لئے دس پائے کی سیڑھی رکھنا پڑتی ہے۔مگر نہیں چونکہ صفائی ہمارے مزاج میں داخل نہیں۔ اس لئے ہم اپنی فطرت پہ چلتے ہیں۔ کوڑا بالٹی میں لے کر آئیں گے۔پھرشاپر کو انگلی میں دبوچ کر یہاں پہنچائیں گے۔مگر اتنا نہیں ہو سکے گا کہ کوڑے کو ہاتھ اوپر کر کے اس بڑے ڈسٹ بن میں گرا دیں۔ہماراکیا جاتا ہے۔تھوڑا سا ہاتھ ہی تو اوپر کرنا ہے۔مگر اتنا بھی اگر ہم سے نہ ہو سکے تو پھر ہم سے کیا ہو سکے۔ ہم لوگ نہیں سدھریں گے۔ہمیں تمام سہولیات اگر حاصل ہو ں تو بھی ہم نے وہی گندگی کا مظاہرہ کرنا ہے جو ہم نے پہلے کیا اور کرتے رہے۔اصل میں ایک علاقے میں کبھی کوڑے دان رکھا ہی نہ گیا ہو۔پھر اس عالم میں تیس سال گذر چکے ہوں تو اس ماحول میں جو نسل اوپر اٹھ کر تیار ہوئی ہے اس کی طبیعت میں صفائی ستھرائی کہاں سے آئے گی۔ اس ڈرم اس گند کوٹھکانے لگانے کے ڈبے ڈولے کہاں سے آئے ہیں۔ان پر باہر کے ملکوں کے مونوگرام چھپے ہوئے ہیں۔جس کا مطلب یہ ہے کہ باہر کی صفائی پسند قوم نے پسند کیا کہ دنیا کے گندے ترین شہروں میں ہمار ے اس شہرِ گل کا شمار نہ ہو۔ جو کبھی پھولوں کا شہر کہلاتا تھا۔کیونکہ ایک شہر کا گندا ہونا پوری دنیاکے لئے بھی مسئلہ ہے۔ مگر اب تو اس شہرِ گل کی نشانی دھول مٹی اوردھواں ہے۔وہ پھولوں والے چلے گئے منوں مٹیوں تلے جا سوئے۔جن کی وجہ سے یہ شہر پھولوں کا شہر تھا۔ اب تو اس کو پھولوں کا شہر کہنا درست نہیں بلکہ ظلم ہوگا۔اس کو اب پھولوں کا شہر کہنا چھوڑ دیں۔ درخواست ہے ان تاریخ کے مطالعہ کرنے والوں سے اور ہسٹری کے شکاریوں سے کہ اب اپنا مزاج بدلیں اور حقیقت پر نگاہ رکھیں۔ اس شہر کی صفائی پر توجہ دیں۔ اس کے شہریوں کے مزاج میں تبدیلی لائیں۔ وہ تبدیلی جس کا شہرہ ہے‘ہم اس شہر کو پھولوں کے ساتھ لنک کرتے ہیں۔ مگرباہر کی اقوام اس کو گندگی کے اوپر کے دس شہروں میں شمار کرتی ہیں۔پھرہم اگر اچھے ہوتے تو ہمارے ساتھ اتنا برا کیوں ہوتا۔ جو کیا دھرا ہے ہمارا اپنا ہے۔ سب کچھ میسر ہے مگر ہم اپنے ہی گھر کے گند کو سڑک پر لاتے ہوئے اتنی لاج نہیں رکھتے کہ شاپر کو ہاتھ اوپر کر کے کوڑے دان میں پھینک دیں۔ اس پر زور ہی کتنا لگتا ہے۔کتنی توانائی خرچ ہوتی ہے کہ ہم اس سے شرمندہ ہوتے ہیں۔جب اعلان ہو جائے کہ ٹرک سے مفت کی آٹے کی بوریاں اتر رہی ہیں لے جاؤ یا پھر مفت کاراشن ہے اورشام تک تقسیم ہوتا رہے گا۔پھر ان راشن کے بڑے شاپروں کے حاصل کرنے کو ہم مردو زن باہر کے ملکوں کی بھیجی ہوئی خوراک حاصل کرنے کو قطار کو پھلانگیں گے۔ایک دوسرے سے آگے بڑھیں گے ایک دوسرے کو بچھاڑیں گے ہاتھ آگے بڑھائیں گے۔جتنا اوپر ہوسکتے ہیں دونوں ہاتھ اوپر اٹھائیں گے مگر کوڑا ڈرم کے اندر نہیں گرائیں گے۔ہماری طبیعتیں کچھ ایسی ہو چکی ہیں کہ ہمیں اگر باہر ملکوں کی طرح گھروں کے اندر شاپر مہیاکر دیئے جائیں او رکہاجائے کہ گند شاپروں میں ڈال کر اپنے گھر کے دروازے کے باہر رکھ دیں ہم اٹھالیں گے۔مگر ہم ایسا کیوں کریں۔ کیا ہم نے اپنا شمار اچھی قوموں میں کرنا ہے۔ہم نے شاپر کو بھرنا ہے کمرے کی کھڑکی کھول کر نیچے گذرتی نالی میں جھپاک سے پھینکنا ہے۔بلکہ یہ تجربہ تو ہو چکا ہے۔ابھی کی بات ہے کہ گھر گھر شاپر تقسیم کئے گئے مگر۔