روس اور چین کی قربت بڑھتی جارہی ہے۔ دونوں کے تعلقات 1950 کے بعد مضبوط ترین سطح پر ہیں۔ اس بڑھتی ہوئی قربت کی نوعیت کیا ہے اور اس کے پیچھے کون سے عوامل ہیں۔ آئیے اس پر بات کرتے ہیں۔چین اور روس کے تعلقات جیسے خوشگوار اب ہیں پہلے ایسے کبھی نہیں رہے۔ ان کے باہمی تعلقات میں گرمجوشی کی وجوہات میں اپنی سلامتی کا تحفظ، معاشی وتزویراتی مفادات کا حصول، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا رویہ اور نئے حالات اور عالمی صف بندی کیلئے تیاری شامل ہیں۔ مغرب کے ساتھ مشترکہ دشمنی اور دونوں پر امریکی و مغربی پابندیاں دونوں ممالک کو قریب لے آئی ہیں اور دونوں ملک ایک دوسرے کے بنیادی مفادات سے متعلق امور پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔امریکہ اور مغرب چین کے خلاف تیزی سے اپنا معاشی غلبہ کھو رہے ہیں جب کہ نیٹو کو ایک طاقتور اور ادعاپسند روس کا سامنا ہے۔ امریکہ روس اور چین کو مستقبل کا اپنا تزویراتی حریف سمجھتا ہے۔ اس کے چین کے ساتھ تائیوان، سنکیانگ اور انسانی حقوق جبکہ روس کے ساتھ یوکرین، سائبر حملوں وغیرہ پر اختلافات بڑھ گئے ہیں۔امریکہ نے حالیہ دنوں میں آن لائن ہونے والے عالمی جمہوریت سربراہ کانفرنس میں چین اور روس کو دعوت ہی نہیں دی۔جوں جوں روس اور چین کے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوتے جارہے ہیں توں توں ان کی باہمی قربت اور تعاون بڑھتا جارہا ہے۔ ایک دوسرے کے ملکوں میں عدم مداخلت، غیر متزلزل باہمی اعتماد اور بین الاقوامی۔امور پر باہمی تعاون ان تعلقات کی خصوصیات ہیں۔دونوں نے 2021 میں مسلسل اور قریبی رابطہ رکھا ہے۔ مئی میں دونوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے دو طرفہ جوہری توانائی کے تعاون کے منصوبے کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کی۔ اور اگست میں دو طرفہ تعلقات اور افغان صورتحال پر بات چیت کیلئے فون پر بات چیت کی۔روس اور چین کے درمیان سیاست، معیشت اور تجارت، سائنس و ٹیکنالوجی، توانائی اور فوج کے شعبوں میں باہمی تعاون کا سلسلہ جاری ہے۔ مارچ میں، چین اور روس نے چاند پر مشترکہ طور پر ایک بین الاقوامی سائنسی تحقیقی سٹیشن کے قیام کیلئے مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے تھے۔ دونوں نے تیانوان نیوکلیئر پاور پلانٹ سمیت جوہری توانائی کے مشترکہ منصوبے شروع کیے ہیں۔چین اور روس نے بری، بحری اور فضائی افواج کی کئی فوجی مشقوں سمیت شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی "امن مشن 2021" انسداد دہشت گردی کی فوجی مشق اور انٹرنیشنل آرمی گیمز 2021 میں شرکت کی۔پچھلے ہفتے روسی صدر ولادیمیر پوتن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ویڈیو کانفرنس ہوئی۔ یہ اس سال دونوں کے درمیان دوسری آن لائن بات چیت اور 2013 کے بعد سے 37ویں ملاقات تھی۔ بین الاقوامی تعلقات میں حکومتی سربراہوں کی اتنی ملاقاتوں کی مثال نہیں ملتی۔ یہ ملاقات ایسے وقت ہوئی جب انسانی حقوق کے معاملے پر چین اور یوکرین کے مسئلے پر روس مغربی دباؤ کا سامنا کررہا ہے۔ صدر پیوتن اور شی جن پنگ نے اتفاق کیا کہ روس اور چین کو مغربی مداخلت مسترد کرنے اور ایک دوسرے کی سلامتی مفادات کے دفاع کیلئے ثابت قدم رہنا ہوگا۔خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق دونوں بڑی طاقتیں مغربی مداخلت کے خلاف متحد ہیں۔ حالیہ دنوں میں دونوں نے امریکہ کی سرکردگی میں جمہوریت پر آن لائن سربراہ کانفرنس پر تنقید کی اور اسے دنیا کو تقسیم کرنے کی کوشش قرار دیا۔ دونوں امریکہ کے یک قطبی عالمی نظام اور اس کی من مانی کے بھی خلاف ہیں۔چین مسلسل کئی سالوں سے روس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے۔ اس سال نومبر تک دو طرفہ تجارت 31 فیصد بڑھ کر 123 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے اور دونوں ممالک کا مستقبل قریب میں 200 بلین ڈالر سے تجاوز کرنے کا ہدف ہے۔ 2018 میں ان کی باہمی تجارت 100 بلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئی اور COVID-19 وبائی امراض کے باوجود یہ رفتار برقرار رہی ہے۔روس چین کو تیل اور گیس برآمد کرتا ہے۔اپنے تعلقات کے 70 ویں برسی کے موقع پر ماسکو میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چینی صدر نے کہا تھا۔”ہم کبھی بھی فراموش نہیں کریں گے کہ جاپانی جارحیت کے خلاف ہمارے سخت مزاحمتی جنگ کے دوران چینی اور سوویت فوج اور عام شہریوں نے مل کر جنگ لڑی۔ پھر عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے دوسرے دن ہی سوویت یونین نے ہمارے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔ اور جب نیا چین پروان چڑھایا جارہا تھا تو روسی ماہرین کی ایک بڑی تعداد نے ہماری مدد کی، حکمت اور پسینے سے نئے چین کو صنعتی بنانے میں مدد کی۔“ ان کے بقول روس اور چین دونوں ایک خوشحال، مستحکم، منصفانہ اور انصاف پسند دنیا کی تعمیر، ایک ذمہ دارانہ بین الاقوامی تعلقات اور انسانیت کے لیے بہتر مستقبل کے لیے کمربستہ ہیں۔روسی صدر ولادمیر پیوتن نے امریکی این بی سی ٹی وی کو انٹرویو میں بتایا”ہمیں نہیں لگتا کہ چین ہمارے لئے خطرہ ہے۔ وہ ایک دوست ملک ہے جو امریکہ کی طرح ہمیں دشمن قرار نہیں دیتا۔ ان کے مطابق روس اور چین کا اتحاد کسی کے خلاف نہیں بلکہ دونوں ممالک کے مفادات کے تحفظ کیلئے ہے۔ روسی وزیر خارجہ کے مطابق چین اور روس کئی سالوں سے اسٹریٹجک شراکت دار ہیں۔ ساتھ چائنا مارننگ پوسٹ کا تبصرہ تھا کہ چین اور روس ”ایک حقیقت“یعنی امریکہ کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی اتحاد کے قریب پہنچ رہے ہیں۔لیکن چین روس قربت کی وجہ صرف مغربی ممالک کا دبا ؤنہیں ہے بلکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی نئی عالمی ترجیحات بھی ہیں۔ وہ نیٹو کو وسیع اور مضبوط کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور روس کو خدشہ ہے یوکرین اور جارجیا کو بھی نیٹو میں شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔تاہم اتنی قربت کے باوجود اب بھی روس بحیر جنوبی چین پر چین کی حمایت نہیں کرتا اور وہ بھارت اور ویتنام جیسے چینی مخالفین کو ہتھیار بھی فراہم کرتا ہے۔ اس طرح چین یوکرین کے علاقے کریمیا کے روس میں شمولیت پر راضی نہیں۔ پھر چین روایتی طور پر پاکستان جبکہ روس بھارت کے قریب رہا ہے۔