تیئس دسمبر دوہزاراکیس: وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ملک میں برآمدات بڑھانے کے لئے درآمدات بڑھانی پڑتی ہیں جس کی وجہ سے قومی خزانے میں ڈالرز کی کمی ہوجاتی ہے اور اِس سے جاری اخراجات (کرنٹ اکاؤنٹ) کی مد میں خسارہ پیدا ہوتا ہے جس پر قابو پانے کے لئے پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) سے قرض لینا پڑتا ہے۔ لاہور میں خصوصی ٹیکنالوجی زون‘ ٹیکنا پولس منصوبے کے افتتاح کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ”کورونا وبا کے دوران جب دیگر کمپنیاں نقصان میں تھیں تو ٹیکنالوجی کمپنیوں کی آمدنی دگنی ہوگئی اور ایسا ہونے کی اہم وجہ یہ ہے کہ دنیا ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ رہی ہے اور پاکستان اس میدان میں پیچھے رہ گیا ہے۔“سال 2021ء کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان صرف ٹیکنالوجی ہی کے میدان میں پیچھے نہیں رہا بلکہ کئی ایسے پیداواری شعبوں کو خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی جو ملک پر قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے تھے۔ سال 2021ء کے ابتدائی پانچ ماہ (جولائی تا نومبر) کے دوران وفاقی حکومت نے قریب چار ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کا غیر ملکی قرض لیا جبکہ جولائی دوہزاراٹھارہ سے چوبیس دسمبر دوہزاراکیس تک لئے گئے مجموعی قرضہ جات کا حجم قریب چالیس ارب ڈالر ہے۔ وزارت اقتصادی امور کی جانب سے جاری کردہ غیر ملکی امداد سے متعلق ماہانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے تقریباً 4ارب 69کروڑ 90لاکھ ڈالر وصول کئے جس میں 4ارب 57کروڑ 50لاکھ ڈالر کا قرض اور تقریباً 12کروڑ 30لاکھ ڈالر کی گرانٹس شامل ہیں۔حکومت کا بجٹ میں رواں مالی سال کے دوران غیر ملکی قرضوں اور گرانٹس کی مد میں تقریباً 14ارب 10کروڑ ڈالر حاصل کرنے کا ہدف ہے۔ رواں مالی سال کے پانچ مہینوں کے مجموعی قرض میں پروگرام یا بجٹ سپورٹ کے لئے 2ارب 93کروڑ ڈالر اور منصوبوں کے لئے ایک ارب سترہ کروڑ ڈالر شامل ہیں۔ انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک جیسے دیگر کثیرالجہتی قرض دہندگان نے رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران مجموعی طور پر تقریباً دو ارب ڈالر تقسیم کئے ہیں۔ ان کے علاوہ عجمان بینک‘ دبئی بینک‘ سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک اور سوئس اے جی‘ یو بی ایل اور اے بی ایل سمیت کمرشل بینکوں نے تقریباً ایک ارب تریپن کروڑ ڈالر تقسیم کئے۔ دوطرفہ قرض دہندگان مثلاً چین‘ برطانیہ‘ امریکہ‘ جاپان‘ فرانس‘ جرمنی اور کوریا نے پاکستان کو ایک ارب چار کروڑ دس لاکھ ڈالر فراہم کئے۔ سال دوہزار اکیس کے رواں ماہ (دسمبر) میں وزارت اقتصادی امور کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مالی سال دوہزاربیس اکیس کے دوران غیر ملکی امداد کی مجموعی رقم تیرہ ارب چوون کروڑ ستر لاکھ ڈالر تھی جو مالی سال دوہزاراُنیس بیس کے دس ارب ستر کروڑ ڈالر سے تقریباً ستائیس فیصد زیادہ ہے۔ مالی سال دوہزاراٹھارہ اُنیس میں ادائیگیوں کا حجم دس ارب بیاسی کروڑ ڈالر تھا جبکہ تین سال کی مجموعی ادائیگیاں پینتیس ارب دس کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں۔ رواں مالی سال کے پانچ ماہ کے دوران چار ارب ستاون کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کی آمد کے ساتھ جولائی دوہزاراٹھارہ سے اب تک مجموعی وصولی تقریباً اُنتالیس ارب پینسٹھ کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں۔گزشتہ برس کی طرح سال دوہزاراکیس بھی قومی قرضوں میں اضافے کا عرصہ رہا اور قرضوں پر منحصر اِس قومی معیشت و معاشرت کو جب تک خودکفالت کی شاہراہ پر گامزن نہیں کیا جائے گا‘ اُس وقت تک پاکستان کے روپے پر دباؤ اور مہنگائی برقرار رہیں گے۔ِ