ہمارا ٹی وی غریبوں کے لئے نہیں ہے۔ٹی وی میں جو کہانیا ں دکھلائی جاتی ہیں وہ مالدار گھرانوں کے قصے ہوتے ہیں۔ہر چند ان میں دکھ درد کی فضابھی ہوتی ہے او رکرداروں کی محرومیوں کو بھی آشکارا کیاجاتا ہے۔مگر ان ڈراموں کو دیکھنے والے زیادہ تر غریبوں کی طرف دھیان نہیں رکھتے۔وہ تو ڈراموں کے سٹیج پر سجنے والے صوفوں اور قیمتی قالین او رباہر ملکوں کی کراکری کو دیکھتے ہیں۔کرداروں کے مہنگے ہوٹل میں کھانا کھانے کو نظر تلے رکھتے ہیں۔ان کی نگاہ کھانے کی میز کی طرف ہوتی ہے۔انسان کی عادت میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنے سے بہتر اور صاحبِ حیثیت لوگوں پر نگاہ رکھتا ہے۔ان سے الٹا احساسِ کمتری کا سبق سیکھ لیتا ہے۔ان کی کامیابیوں کو دیکھ کر اپنے آپ کا چہرہ اس آئینے میں الٹا دیکھتا ہے۔وہ اپنے آپ کو محروم و مقہور مجبور سمجھتاہے۔یہ الگ بات کہ ٹی وی ڈرامہ لکھنے والا اور اس کے کردار اور پروڈیوسر تک مجبوری کی زندگی جی رہے ہوں۔ مگر سارا کام پیشکاری کا ہے۔جو پروڈکشن ملتی ہے وہ اہلِ ثروت کی ہوتی ہے۔جو مصنوعی ہے۔وہ ہمارے زیادہ تر معاشرے کی عکاسی نہیں کرتی۔ یہ ٹی وی والوں کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ اپنے پاس سے بنائی گئی جھوٹ کی خوبصورتی کو سامنے لائیں۔حالانکہ ہمارا ملک ایک غریب ملک ہے۔جس میں اگر ہوں تو بیس فی صد ہی روپے پیسے والے وہ لوگ ہوں گے جن کی زندگی کو ڈراموں میں پیش کیا جاتا ہے۔باقی تو گھٹ گھٹ کر جینے والے لوگ ہیں۔ جو تفریح کے نام پر جب ٹی وی دیکھتے ہیں تو انھیں اس میں تفریح کے نام پر روپے کی چکاچوند ملتی ہے۔یہ ٹی ڈراموں کی دنیا کامیاب اور توانا لوگوں کی دنیا ہے۔مگر کیا کریں کہ بچوں کو تو چھوڑ خود بڑے بھی سکرین پر نظر آنے والے صاحبِ حیثیت کرداروں کو دیکھ کر اندر اندر کمتری کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ہمارے ہاں کے بچے بچیاں جب اس روشنی کی بہتات میں چلتے پھرتے کرداروں کو دیکھ پاتے ہیں تو ان کی آنکھیں چندیا جاتی ہیں۔پھر انھیں اپنی غربت نظر نہیں آتی اور وہ ٹی وی میں دکھلائی جانے والی مالدار لوگوں کی پر آسائش اور آسان زندگی کو دیکھ کر اپنی جیون کہانی او ربھی دشوار بنا ڈالتے ہیں۔پھر نئی نویلی بڑی گاڑیاں چمکدار لباس او رشادیوں بیاہوں کا انداز دیکھ کر ان گھروں کی بچیاں احساسِ کمتری کا شکار کیو ں نہ ہوں گی۔جن کے صحن کی دیواروں پر غربت بال کھولے سو رہی ہوتی ہے۔عام ناظرین سمجھتے ہیں کہ زندگی اسی طرح کی کوئی انمول کھانے کی ڈش ہے جو ہمیں بھی پلیٹ میں تیار ملنا چاہئے۔ مگر ان کو معلوم نہیں کہ زندگی پھولوں کا بستر نہیں یہ تو کانٹوں کی سجاوٹ ہے۔یہی سے وہ بچے محرومی میں پل کر جوان ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض جرائم کی دنیا میں کھنچے چلے جاتے ہیں۔کسی کو کیا معلوم۔ ان کو بھی زندگی ہشکاتی ہے کہ ہمیں بھی اس طرح کی حیات حاصل ہو جس میں گاڑیا ں ہیں او رجو خواہش کرو وہ مل جایا کرے۔جرائم کی ابتدا ء میں بھی اسی محرومی کابڑا ہاتھ ہے۔جو لوگ چاقو چھری اٹھا کر اور ساتھ پستول لے کر باہر نکل جاتے ہیں۔اس میں کسی کو کیا شک ہوگا کہ ان کو اس کام پر آمادہ کرنے والی خو دان کی محرومیا ں ہوتی ہیں۔ ہر ایک فرد کی اپنی شخصیت ہے اور ہر ایک آدمی کی اپنی محرومیاں ہیں۔جو ہر گھر کے لحاظ سے اور ہر خاندان کے طور پر ہر گلی محلے ہر شہر میں الگ الگ جدا جدا ہیں ہمارے ملک میں وہ کون سا معاشرہ ہوگاجہاں اس قسم کے چھینا جھپٹی والے جرم نہیں ہوتے ہوں گے۔یہ ہمارا اپنا ہی کیا دھرا ہے۔خود ہم لوگ اپنے معاشرے کو تباہ حال کر دیتے ہیں اور پھر گلہ کرتے ہیں۔”ہم کو ان سے وفا کی ہے امید۔ جو نہیں جانتے وفا کیا ہے“ ہم کو ان سے اچھائی کی توقع ہوتی ہے جن کو ہم نے ٹی وی کی نرسری میں سے محرومی کی حالت میں لوٹ مار سکھلائی ہوتی ہے۔ ٹی وی سے ہم بڑے اور ہمارے چھوٹے روز بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ پھر جو سیکھتے ہیں وہی اپنی زندگی میں آزماتے ہیں۔سی سی فوٹیج کیمرے ہر جگہ لگے ہیں۔مگرکسی کو دیکھتی آنکھوں اور ان سنتے کانوں کی پروا ہی نہیں رہی۔ اب تو مجرموں نے رخ پر نقاب بھی لینا چھوڑ دیا ہے۔اب وہ کیمرے میں نظر آتے ہیں او رپکڑے بھی نہیں جاتے۔