قومی اور بین الاقوامی منظر نامہ

یہ خبر خوش آئند ہے کہ آئندہ انتخابات میں ای وی ایم کے استعمال پر کام درست سمت میں جاری ہے،، الیکشن کمیشن کے ترجمان کے بیان میں بتایا گیا ہے کمیشن اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریاں سر انجام دیتا رہے گا اور واضح کیا کہ وہ ووٹنگ مشینیں نصب کرنے سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں غفلت نہیں کر رہا۔خیال رہے کہ چند روز قبل ای سی پی کے ایک عہدیدار نے کہا تھا کہ وہ یہ بات یقینی طور سے نہیں کہہ سکتے ہیں آئندہ انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال کی جائیں گی۔ اب ترجمان الیکشن کمیشن کا یہ کہنا یقینا خوش آئند ہے اور اس سے غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا ہے کہ کمیشن ای وی ایمز کا قانون آنے سے قبل سے ہی ٹیکنالوجی کے استعمال کیلئے کام کررہا ہے۔انہوں نے کہ اس قانون کے منظور ہونے کے بعد کمیشن کی جانب سے تین کمیٹیاں بنائی گئی تھی وہ اپنا کام کر رہی ہیں اور ای سی پی کو اپنے کام سے آگاہ کر رہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ای وی ایم خریداری کے عمل کے بہت سے مراحل ہیں جن میں انتخابی عمل کی آٹومیشن کیلئے کام کے دائرہ کار کو حتمی شکل دینا، بین الاقوامی معیار کے مطابق تکنیکی خصوصیات کی تیاری، درکار افعال کی نشاندہی اور ای وی ایم کو ہینڈل کرنے کیلئے کام کرنے سمیت کئی اہم امور شامل ہیں۔ترجمان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ای وی ایمز کو محفوظ رکھنے، اس کی محفوظ اور سلامت ٹرانسپورٹیشن کیلئے 2 لاکھ سے 3 لاکھ 50 ہزار مربع فٹ کے ویئر ہاسز بھی بنائے ہیں، جبکہ مشینیں نصب کرنے، ای وی ایمز کو استعمال اور پولنگ کے دن کیلئے تعاون کیلئے عملے کی تربیت دینے پر بھی کام کیا جارہا ہے۔دیکھا جائے تو پاکستان میں جتنے الیکشن ہوئے ہیں چند ایک چھوڑ کر اکثر کے حوالے سے دھاندلی کے الزامات لگتے آئے ہیں۔ اب جب کہ موجودہ حکومت نے الیکشن کو صاف و شفاف بنانے کیلئے اقدامات کی طر ف توجہ دی ہے تو ایسے میں عوام کو یقینا اطمینان ہوگا کہ ان کے ووٹ کی اب اصل معنوں میں قدر کی جائے گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے دیگر شعبوں کی طرح انتخابی اصلاحات کو بھی اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے اور اس کے پاکستان کے سیاسی نظام اور جمہوریت کے استحکام کے حوالے سے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔اب تذکرہ کرتے ہیں روس کے دو صدر کے بیانات کا،ایک تو موجودہ صدر پیوٹن اور دوسرے سابقہ سویت صدر گورباچوف۔ دونوں بیانات موجودہ حالات کے حوالے سے بہت اہم ہیں۔روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے گزشتہ روز ایک سالانہ نیوز کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ پیغمبر اسلام کی توہین اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔ روسی صدر کے بیان کے ردِ عمل میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔ولادیمیر پیوٹن کے اس بیان کے بعدوزیراعظم عمران خان نے کہا کہ صدر پوتن کا بیان ان کے اس پیغام کی توثیق کرتا ہے کہ پیغمبر اسلام کی توہین ”اظہار رائے کی آزادی“ نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ ہم مسلمانوں، خاص کر مسلمان لیڈروں کو اسلاموفوبیا سے نمٹنے کیلئے غیر مسلم دنیا تک یہ پیغام پھیلانا چاہئے۔ صدر پیوٹن نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ پیغمبر اسلام کی توہین مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے اور اسلام کے پیروکاروں کے مقدس احساسات کی خلاف ورزی ہے۔صدر پیوٹن نے کہا کہ اس قسم کے اقدامات شدت پسندی کو فروغ دیتے ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے فرانس میں پیغمبر اسلام کے خاکے شائع کرنے والے میگزین کا ذکر کیا۔صدر پیوٹن نے فنکارانہ صلاحیتوں کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی کو سراہا لیکن ساتھ ہی کہا کہ اس کی کچھ حدود ہیں اور اس سے دوسروں کی آزادی کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہئے۔اب کچھ ذکر سوویت یونین کے آخری صدر گورباچوف کے حالیہ بیان کا تذکرہ کرتے ہیں۔ سابق صدر میخائل گوربا چوف نے کہا ہے کہ سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد امریکہ طاقت کے نشے میں مغرور ہوگیا اور کسی کے قابو میں نہیں رہا۔90 سالہ گورباچوف نے مزید کہا کہ امریکہ کی بالادستی کی خواہش اسے نیٹو میں لے گئی اور اب امریکہ اس فورس کے ذریعے یوکرین کا بہانہ بنا کر روس کی سرحدوں پر دباو ڈال رہا ہے۔ سویت یونین کے آخری صدر گوربا چوف نے مزید کہا کہ ایسی صورت حال میں اپنی اجارہ داری کے زعم میں مبتلا امریکہ اور مغرب کے ساتھ برابری کے تعلقات پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ امریکہ ا س وقت جس جارحانہ رویے کا مظاہرہ کررہا ہے اور طاقت کے زعم میں مبتلا ہے وہ اس کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے اور دیکھا جائے تو ا سکا آغاز ہوچکا ہے۔ افغانستان سے شکست خوردہ حالت میں نکلنا کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ یہ ویت نام جنگ کے بعد امریکہ کو دوسری عبرت ناک شکست ہوئی ہے۔ ایسے میں اگر امریکی قیادت نے تاریخ سے نہ سیکھا تو وہ وقت دور نہیں جب امریکہ کی طاقت اور گھمنڈ بھی ماضی کا حصہ بن جائیں۔