بلدیات سے آگے 

خیبر پختونخوا میں بلدیا تی انتخا بات کا پہلا مر حلہ اختتام کو پہنچا 6قیمتی جا نیں ضا ئع ہوئیں 13بے گنا ہ شہری زخمی ہوئے ایک شہری خود اپنی گو لی کا نشا نہ بن کر زند گی کی بازی ہار گیا نتیجے میں 17 اضلا ع کے اندر 4شہروں کے مئیر حزب اختلاف کو ملے 64تحصیلوں میں سے 56تحصیلوں کے چیئر مین کے عہدے بھی حزب اختلاف کو ملے اس نتیجے کا مطلب یہ ہوا کہ سر کاری جما عت نے ووٹ میں ہیرا پھیری نہیں کی انتخا بات قانون کے مطا بق آزاد انہ اور غیر جا نبدارانہ تھے ایسا نہ ہوتا تو سر کاری پارٹی کیلئے ساری نشستیں اپنی جیب میں ڈالنا مشکل نہیں تھا ما ضی میں ایسے کا م ہم نے بہت دیکھے یہ پہلا مو قع ہے کہ سر کاری پارٹی نہ صرف ہار گئی بلکہ اپنی شکست کو تسلیم کرنے میں کسی تردد اور ہچکچا ہٹ سے کا م نہیں لیا اب آگے سر کاری پارٹی کا دوسرا بڑا امتحا ن آرہا ہے امتحا ن یہ ہے کہ جن حلقوں میں حزب اختلا ف کے لو گ کامیاب ہوئے ان کو حلقے میں تر قیا تی کا موں کیلئے فنڈ ملیں گے یا نہیں؟ اگلے دو سالوں میں سر کاری پارٹی اس امتحا ن سے یا سر خرو ہو کر نکلے گی یا نتیجہ اس کے بر عکس ہو گا پھر عام انتخا بات کا مر حلہ آئیگا جمہو ری مما لک میں عام طور پر سر کاری پارٹی خود انتخا بات کراتی ہے ہمارے ہاں اس کی جگہ عبوری حکومت لا ئی جا تی ہے کیونکہ سر کاری پارٹی پر کوئی اعتبار نہیں کر تا جمہوری مما لک میں ووٹ ختم ہونے کے پندرہ دن یا ایک مہینہ بعد نتیجہ آتا ہے تما م پو لنگ سٹیشنوں سے ووٹوں کے بکسے مر کزی شہر کے مر کزی دفتر میں جمع کئے جا تے ہیں وہاں ووٹوں کی گنتی ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں اعتما د کا شدید فقدان ہے اعتما د کے فقدان کی وجہ سے کسی کو بھروسہ نہیں کہ ووٹ کے بکسے کسی بڑی گڑ بڑ کے بغیر پولنگ سٹیشن سے مر کزی دفتر لا ئے جائینگے اعتما د، اعتبار اور بھرو سے کا یہ بحران ہمارے ملک کے تما م بحرانوں کی جڑ ہے اس بداعتمادی سے شک پید ا ہو اہے پا کستان کے سوا دنیا کے 192مما لک میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں جہاں سیا سی جما عتوں میں جا نی دشمنی ہو ں آپ کو کسی جمہو ری، نیم جمہوری یا غیر جمہوری ملک میں ایسا نا قا بل برداشت ما حول نہیں ملے گا جس میں سیا ستدان ایک دوسرے کو جا نی دشمن کا درجہ دیتے ہوں سیا سی ما حول قبا ئلی دشمنی اور رقا بت سے بد تر ہو‘ نہیں پا کستان کے سوا کسی بھی ملک میں ایسا نہیں ہو تااب وقت آگیا ہے کہ سیاست میں برداشت روادی اور وسیع القلبی کو جگہ ملے اور عدم برداشت کا خاتمہ ہو۔کیونکہ سیا سی لیڈروں کی مثال وکلا ء کی طرح ہوتی ہے جس طرح وکلا ء عدالت میں ایک دوسرے کے مقا بل ہوتے ہیں عدالت سے با ہر گہر ے دوست بن جا تے ہیں سیاستدانوں کی آپس میں مخا لفت پا رلیمنٹ تک محدود ہو تی ہے پار لیمنٹ سے با ہر آکر وہ آپس میں گہر ے دوست ہوتے ہیں ان میں قبا ئلی رقابت اور دشمنی نہیں ہو تی  دوستوں کا خیال ہے کہ تمام سیاسی قائدین وسیع القلبی کا مظا ہر ہ کریں تو اختلافات اور شدید مخاصمت کی حالت ختم ہو سکتی ہیں اور اس وقت ضرورت بھی عدم برداشت کے خاتمے اور روادی و وسیع القلبی کو رواج دینے کی ہے تاکہ عوام اپنے مسائل کے حل کیلئے جمہوریت اور سیاسی نظام کوہی توجہ کامرکز بنائیں اور غیر جمہوری رویوں سے نجات پائیں۔ اوراس میں تمام سیاسی جماعتوں کافائدہ ہے کہ ان کے عدم برداشت کے رویوں سے عوام مایوس ہوسکتے ہیں جو کسی بھی طرح جمہوری اداروں کے استحکام کے حوالے سے نیک شگون نہیں۔