کسی ملک کی زری حکمت ِعملی (مانیٹری پالیسی) کا براہ راست تعلق عام آدمی سے ہوتا ہے‘ جس پر اِس کی نرمی اور سختی جیسے تجربات کا فوری اثر دیکھنے میں آتا ہے۔ اِس سلسلے میں پاکستان کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں اور یہاں سال 2021ء کے دوران مانیٹری پالیسی کو سخت یا نرم کرنے کے براہِ راست اثرات عام آدمی (ہم عوام) پر مرتب ہوئے۔ جب روپے کی قدر کم ہو یا بین الاقوامی سطح پر خصوصاً ان اشیا کی قیمت میں اضافہ ہو جو پاکستان درآمد کرتا ہے تو دونوں صورتوں میں افراط ِزر پیدا ہوتا ہے یعنی مقامی سطح پر قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جسے عرف عام میں مہنگائی کہا جاتا ہے۔ مانیٹری پالیسی کمیٹی کے گزشتہ اجلاس میں بنیادی شرح سود میں ڈھائی فیصد کا اضافہ کیا گیا۔ اس امر کے پیچھے بنیادی مقصد بڑھتی ہوئی مہنگائی (انفلیشن) یعنی عام استعمال کی اشیا کی قیمتوں کو قابو میں رکھنا اور بڑھتے ہوئے جاری اخراجات (کرنٹ اکاؤنٹ) کے خسارے کو کنٹرول کرنا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ دراصل بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کی وجہ سے ہے۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے بنیادی شرحِ سود میں کئے جانے والے اضافے سے صنعتی پیداوار متاثر ہوگی کیونکہ اس عمل سے خام مال کی قیمت بڑھنے کا امکان ہے۔ دوسری جانب زراعت کی پیداوار میں کسی قسم کی کمی ہونے کی توقع نہیں چنانچہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی ترقی کے اہداف پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے اور ممکنہ طور پر جی ڈی پی کے چار سے پانچ فیصد کے ہدف کو حاصل کیا جاسکے گا۔ سردست بڑھتا ہوا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پالیسی سازوں کے لئے باعث ِتشویش بنا ہوا ہے۔ مالی سال کے ابتدائی چار ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پانچ ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا اور اکتوبر میں ایک ارب چھیاسٹھ کروڑ ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔ اس کی بڑی وجہ عالمی سطح پر اجناس اور خدمات کی درآمدات میں اضافہ ہے۔ اس اضافے کا بوجھ پاکستان روپے کی قدر پر بھی پڑا ہے۔ حکومت کا مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے صفر اعشاریہ آٹھ فیصد کے برابر پہنچ گیا ہے جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے ایک اعشاریہ ایک فیصد کے برابر تھا۔ شرح سود میں اضافے کے بعد مالیاتی خسارے میں مزید اضافہ متوقع ہے کیونکہ قرضوں پر واپسی کی رقم بڑھ جائے گی۔حکومتی ٹیکسوں کی وصولی کی صورتحال حوصلہ افزأ نظر آرہی ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ٹیکسوں کی وصولی نئے مالی سال میں ہدف سے چھتیس اعشاریہ پانچ فیصد زائد رہی۔ پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی اور نان ٹیکس محاصل میں بائیس اعشاریہ چھ فیصد کی کمی کے باوجود یہ اضافہ دیکھا گیا۔ حکومت موجودہ مالی سال کا نظرثانی شدہ بجٹ پیش کرنے جارہی ہے‘ اس دوران جون کے بجٹ میں رکھے گئے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی اور ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کرنے کیلئے بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ اس منی بجٹ یا نظرثانی شدہ تخمینے میں دوسو ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ اور پچاس ارب روپے کے حکومتی اخراجات میں کٹوتی کی جائے گی اور مختلف شعبہ جات میں دی جانے والی ٹیکس چھوٹ کو ختم کرتے ہوئے سات سو ارب روپے کے اضافی محصولات جمع کرنے کی قانون سازی کی جائے گی۔دوہزاراکیس میں پاکستان نے عالمی مالیاتی ادارے (IMF) سے سٹاف کی سطح پر پروگرام کی بحالی سے متعلق مذاکرات کئے جنہیں کامیاب قرار دیا گیا اور اب آئی ایم ایف کے بورڈ سے اس کی حتمی منظوری ملنے کا انتظار کیا جارہا ہے۔ اس طرح پاکستان کو ملنے والے فنڈز کی مجموعی رقم تین اعشاریہ صفر دو سات (3.027) ارب ڈالر ہو جائے گی تاہم پاکستان کو غیر ملکی قرضوں کی واپسی کے حوالے سے بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کی خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی ترقی کی شرح چار فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کیلئے الگ سے دباؤ بھی ڈالا ہے اور گردشی قرض (سرکلر ڈیٹ) ختم کرنے کیلئے سرکلر ڈیٹ مینجمنٹ پلان پر عمل ہونا ہے تاکہ توانائی کی فراہمی اور اِس کی طلب و فروخت پر مبنی بندوبست (سپلائی چین) کو بہتر بنایا جا سکے۔