اس شہرِ محبت میں 

شہرگل میں ٹریفک کے انتظام و انصرام کا اہتمام رائیگاں جاتا ہے۔ہم لوگوں میں ٹریفک کا سینس نہیں۔ہم اس کو کچھ سمجھتے ہی نہیں۔ حالانکہ یہ پورا ایک مضمون وسیع تر معنوں میں ہے۔جس کو بس ہم ایک ہی لفظ ”ٹریفک“ کے نام سے جانتے ہیں۔جس کو ہم خوب یرغمال کرتے ہیں۔اس مضمون کونہ تو کورس میں شامل نصاب کیا گیا۔خدا بھلا کرے پیارے علی کا جو ٹریفک پولیس ایف ایم چینل کوموبائل براہِ راست ویڈیو اور ریڈیو پر چلاتے ہیں۔ ٹریفک آگاہی دلاتے ہیں۔یہ نہیں کرنا وہ نہیں کرنا۔ہیلمٹ پہنیں۔ بائیں ہاتھ چلیں۔مگر ہم وہی کرتے ہیں جو ہمیں زیب نہیں دیتا۔بلکہ علی نے تو ہمیں بھی ٹریفک معاملے میں ایک پروگرام میں بلایا تھا۔ جس میں ہم پشاور کے عوام سے اور جہاں جہاں تک ہماری آواز گئی پبلک کو نصیحت کی۔مگر ہمارے بھائیوں کے کانوں کو نصیحت کہاں لگتی ہے۔علی نے ہمیں اس لئے کھینچ بلایا کہ جو کالم ریڈرہمارے کالموں پر نگاہ رکھتے ہیں کہتے ہیں کہ ہم ٹریفک کے مسائل پر بہت زیادہ لکھتے ہیں۔بلکہ نیویارک سے جناب عتیق احمد صدیقی بھی ہماری ٹریفک میں دل چسپی کو غور سے دیکھتے ہیں۔ان کا بھی کہنا ہے کہ آپ ٹریفک کے بارے میں رش کاحال تو لکھتے ہیں۔پھر آپ کئی بازاروں کی طرف جانے سے منع کرتے ہیں۔مگر چونکہ پشاور ہمارا آبائی شہر ہے۔ اس لئے ہمارا جب بھی آناہوتا ہے۔ ہم جان بوجھ کر اس شہر کی بھیڑ بھاڑ میں گم ہو جاتے ہیں۔یہ ان کی محبت ہے۔منع کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں سرے سے نہ جائیں۔ ہاں متبادل راستے سے جائیں۔ یہی تو ٹریفک پولیس کے کارندے اور ان کے سپوک مین بھی خواہ افسر ہیں یا اہلکار فرماتے رہتے ہیں۔کیونکہ اب یہ چھوٹا موٹا شہر نہیں رہا بڑا اور وسیع ترہو چکا ہے۔جس کا ٹریفک انتظام قریب قریب آسانی سے سنبھلنے والا نہیں۔ کیونکہ ہم شہری خود اچھے نہیں۔ وہ شعر ”بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا۔تیری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے“۔یہ کالم لکھنے کا ارادہ اس لئے کیاکہ میئر پشاور نے سب سے پہلے جو ایکشن لینے کا عندیہ دیا ہے وہ ٹریفک سسٹم کی بدحالی کو خوشحالی میں تبدیل کرنا ہے۔یہ بظاہر لب و دنداں سے نکلی ہوئی صرف بات ہی نہیں۔بلکہ مشکل ٹاسک ہے جو انھوں نے اپنے ذمہ لیا ہے۔کیونکہ وہ اس شہر کے باسی ہیں اور میئر شپ سے قبل اس شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں آتے جاتے رہے۔ ۔سو اب اگر اس طرف حکومتِ وقت کا دھیان ہوا تو بہت اچھا کام ہوا۔وہ اس لئے کہ جو پشاور کی سرزمین پر موٹر وے سے نیچے اترتا ہے پشیمان ہوتا ہے۔مگر اس نے اپنے کام کاج کے لئے آگے جانا ہوتا ہے۔جو کوہاٹ روڈ کی طرف سے شہر میں داخل ہوتا ہے جھنجھلا جاتا ہے کہ میں نے کانٹوں بھرے راستے کاانتخاب کیوں کیا ہے۔پھر جو یونیورسٹی روڈ کی سائیڈ سے آتا ہے تو طبیعت کی گرانی اس کے ہاتھ بھی لگتی ہے۔وہ ا س شہری کی طرح سر جھٹکتا ہے جو جی ٹی روڈ اور چارسدہ روڈ سے شہر کی حدود میں داخلِ زنداں ہوتا ہے۔سرکاری گاڑیاں ہوں یا ایمبولینس ہو یا عام لوگوں کی دو پایہ سہہ پایہ اور چار پہیوں والی چھوٹی بڑی گاڑیاں ہوں آپس میں سینگ الجھا لیتی ہیں۔ہارن پہ ہارن بجتے ہیں۔ ایمبولینس چیختی رہ جاتی ہے۔ مگر اسے کوئی راستہ ہی دینا نہیں چاہتا۔پھر نہ تو آگے جایا جاتا ہے اور نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔بیچ میں ساکت و جامد کھڑے ہوکر شہریوں کی غلطیوں او رنادانیوں کا تماشا دیکھتے ہیں۔اس لئے کہ شہر پشاور میں جو رش بنتا ہے وہ سارے کا سارے مصنوعی ہوتا ہے۔خواہ مخواہ کا ہجوم او رٹریفک کا اژدہام۔وہ اس لئے کہ یہاں ہر آدمی کو جلدی ہے۔پھر وہ اس جلدی کے عالم میں غلطی کے اوپر ایک اور غلطی کر کے ماحول کو ناخوشگوار بنا دیتا ہے۔