معاشی ترقی کا چینی ماڈل

چین ہمارا قریبی دوست اور پڑوسی ملک ہے،یہ دوستی کا رشتہ اس وقت استوار ہوا جب چین اقتصادی اور دفاعی طاقت کے حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ پاکستان  نے کئی شعبوں میں چین کی مدد کی۔ وہاں پر ائر لائن تشکیل دینے میں مہارت فراہم کی۔ باہر کی دنیا سے اس کے روابط استوار کئے اور چین نے ان احسانات کے بدلے میں پاکستان کے ساتھ ایسی دوستی نبھائی کہ ہر آزمائش پر پورا اترنے والی دوستی کی دنیا مثال دیتی ہے۔ تاہم اس وقت حالات کچھ اور ہیں۔ چین سپر پاور کی حیثیت سے پوری دنیا پر اثر رسوخ رکھنے والا ملک بن گیا ہے اور پاکستان جس نے چین کی کئی شعبوں میں مدد کی اب چین کی مدد سے معاشی ترقی کے منصوبے تشکیل دے رہا ہے۔ چین نے جو مقام آج حاصل کیا ہوا ہے وہ ایک دن میں حاصل نہیں ہوا بلکہ چین قدم بہ قدم مرحلہ وار بھرپور حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھا۔ اب چین کی معاشی حکمت عملی اس بات کے گرد گھوم رہی ہے کہ اقوام عالم کے ساتھ دوستانہ اور تجارتی روابط ہوں۔ اس معاملے میں چین مالی منافع سے زیادہ تعلقات کو اہمیت دے رہا ہے۔ چین کا یہ ماننا ہے کہ دشمن کو دوست اور دوست کو بھائی بنا سکتے ہیں، مزید یہ کہ دیگر اقوام سے صرف نفع کمانے پر ہی توجہ نہ ہو بلکہ روزگار کے مواقع دے کر ان کی قوت خرید کو بھی مستحکم کیا جائے۔ کورونا وبا کے دوران پاکستان نے معیشت کو خوش اسلوبی سے بحال رکھا تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم زرعی و صنعتی پیداوار میں اضافہ کرکے معیشت کو نئی زندگی دیں اور اس کیلیے ہمیں ایک مضبوط و پائیدار معاشی نمونے کی ضرورت ہے۔ دنیا کی ترقی یافتہ معیشت چین کے ساتھ تعلقات اعزاز کی بات ہے، تاہم ہمیں چاہیے کہ چین کے مستحکم معاشی ماڈل سے سیکھیں۔پاکستان میں معاشی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ چین کی تیز رفتار معاشی و معاشرتی ترقی سے سیکھا جائے اور طویل المیعاد منصوبوں پر توجہ مرکوز کی جائے۔ ہنرمند افرادی قوت میں اضافے پر توجہ اور صحت مند ماحول کی تشکیل کی جائے تاکہ عوام منفی رجحانات سے ہٹ کر ترقی میں مثبت کردار ادا کرسکیں۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ نتائج کی فکر کیے بغیر ملکی تعمیر و ترقی میں شرکت کریں۔ سب سے اہم بات کہ تعلیم کو عام کرنا ہوگا کیونکہ تعلیم ہی وہ زینہ ہے جو ہمارے مستقبل کو چین کی طرح استحکام کی جانب لے جاسکتا ہے۔دنیا میں معیشت کے حوالے سے اس وقت کئی  نظام رائج ہیں ان میں سے  چین نے اقتصادی ترقی کیلئے سوشلزم کو اپنایا تاہم اس نے تنگ نظر ی کامظاہرہ کرنے کی بجائے دیگر مقابلے میں موجود معاشی نظاموں سے بھی کئی اچھے پہلو اس میں شامل کئے اس وقت چین کا ہر اقدام بہتر معاشرے کی تشکیل کے گرد گھوم رہا ہے۔چین کی معاشی ترقی کے پیچھے سالہا سال کی جدوجہد اور آگے بڑھنے کی سوچ کا اثر ہے۔ جائزہ لیا جائے تو چین میں معاشی و معاشرتی استحکام کے تین مراحل دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں معاشرتی بدلاؤ لایا گیا ا س سلسلے میں چین نے ایسے انسانی سرمایہ کی تیاری پر توجہ دی جن کا دل و دماغ چین کی فلاح و بہبود سے جڑ گیا۔ دوسرے مرحلے میں بڑھتی معاشرتی ضروریات اور وسائل کی کمی سے نمٹنے پر توجہ دی گئی۔ اس مقصد کیلئے چین نے انڈسٹری اور زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ ایگریکلچر ٹان شپ اور اجتماعی گھریلو نظام کو ترجیحات میں شامل کیا۔ لوکل گورنمنٹ، پارٹی، ریاست، معاشی دھڑوں اور ہاؤس ہولڈ کی اکائیاں قائم کی گئیں۔ ٹاؤن شپ ویلیج انٹرپرائز کے نظام کی اعانت کی۔ لوکل گورنمنٹ کو اختیارات منتقل کیے تاکہ وہ اہداف کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے بروقت فیصلے کرسکیں۔ آخری مرحلے میں چین نے غربت کے مکمل خاتمے پر کام کیا۔ عوام کو مالی امداد فراہم کرنے کے بجائے روزگار کے مواقع فراہم کیے، غربت و بے روزگاری کو مٹانے کیلئے کثیرالمقاصد اہداف رکھے، دیہی آبادی کو انڈسٹری سے جوڑ کر معاشی سرگرمیوں کا جال بنا۔ مزید یہ کہ زندگی کے بہتر وسائل فراہم کیے۔چین کی ترقی کا راز یہ بھی ہے کہ وہ نہ صرف قلیل المیعاد منصوبوں پر کام کرتے رہے بلکہ طویل المیعاد منصوبوں پر بھی کام کیا۔ چین نے ہر فیصلہ مستقبل کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیا، فیصلہ سازی کو آسان بنایا۔ چین جب بھی کوئی کام کرنے کی ٹھان لے تو اس کی منصوبہ بندی تین سال قبل ہی شروع کردی جاتی ہے۔چینی اقتصادی ماڈل کے نتائج پر غور کیا جائے تو کامیابیوں کی فہرست طویل ہے۔ اصلاحات کی بدولت چین نے 770 ملین افراد کو بے روزگاری سے نکالا۔ 2018 میں 16.8 ملین افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ 2 سال کے عرصے میں چین نے غربت کے مکمل خاتمے کا اعلان کردیا۔ 1976 میں چین کے جنگلات 10 فیصد تھے جو بڑھ کر 2018 میں 22.66 فیصد تک پھیل گئے۔ یہ چین کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ 9 فیصد زرعی رقبے کے ساتھ دنیا کی 20 فیصد آبادی کی خوراک کا بندوبست کررہا ہے۔پاکستان کو چین کے معاشی ماڈل کو اپنا کر پائیدار بنیادوں پر اپنی معیشت کو استوار کرنے میں تیزی دکھائے تو یقینا اس کے دور رس اثرات سامنے آئیں گے۔