روس اور چین کا باہمی تعلق مضبوط اور مختلف امور پر ان کا ارتباط بڑھ رہا ہے۔ سوال یہ ہے اس باہمی اتحاد و تعاون کا انہیں کیا فائدہ ہوگا اور امریکہ، عالمی سیاست اور خطے کیلئے اس کے کیا مضمرات ہوسکتے ہیں‘ جلد دنیا دو دھڑوں میں تقسیم ہوسکتی ہے جس میں ایک طرف امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی ہوں گے اور دوسری طرف چین اور روس اور ان کے حلیف وسطی ایشیاء ممالک اور مشرقی ایشیاء ممالک ہوں گے۔امریکی ہیئت مقتدرہ کے خیال میں اب امریکہ کو روس اور چین کے بڑھتے ہوئے عالمی اثر و رسوخ کو روکنے پر زیادہ توجہ دینی چاہئے مگر اب بظاہر چین اور روس کو روکنا، دبانا، دھمکانا اور اپنا مطیع بنانا اس کیلئے ممکن نہیں رہا۔ امریکہ بے شک اکیلے چین یا روس سے زیادہ طاقتور ہے لیکن اگر یہ دونوں اپنی فوجی و معاشی طاقت اور خارجہ پالیسی کے مقاصد یکجا کرلیتے ہیں تو اس سے یورپ اور ایشیا بلکہ پوری دنیا میں طاقت کا توازن بدل جائے گا اور یہ اتحاد امریکہ کیلئے تزویراتی طور پر نقصان دہ ہوگا۔دونوں ممالک اپنی شراکت داری کو امریکی اثر و رسوخ کم کرنے کرنے کیلئے بڑی ہوشیاری سے استعمال کررہے ہیں۔ روسی صدر پیوٹن کے مطابق اگرچہ روس کو چین کے ساتھ کسی اتحاد کی ضرورت نہیں ہے تاہم دونوں کا اتحاد عالمی توازن کو مکمل تبدیل کردے گا۔ ان کے بقول ان تعلقات کے خلاف سرگرم کچھ مغربی طاقتوں کے مقابلے اور اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے دونوں ملکوں کو مشترکہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ امریکہ کی چین کے ساتھ انسانی حقوق، سنکیانگ، تائیوان اور بحیر جنوبی چین جبکہ روس کے ساتھ یوکرین، نیٹو میں توسیع اور مشرقی یورپ میں فوجی سرگرمیوں سمیت مختلف امور پر کشیدگی بڑھ رہی ہے مگر روس چین یکجہتی کے پیش نظر امکان یہ ہے کہ امریکہ روس اور چین کے ساتھ کشیدگی ایک خاص حد سے بڑھنے اور جنگ کی نوبت نہیں آنے دے گا۔ نیٹو چیف کے مطابق نیٹو روس کے ساتھ اگلے سال کے آغاز میں بامعنی بات چیت کا خواہاں ہے۔ اور امریکہ بھی روس کے ساتھ دو طرفہ طور پر یا نیٹو‘روس کونسل کے ذریعے یا یورپ کی تنظیم برائے سلامتی و تعاون کے ذریعے بات چیت کیلئے تیار ہے تاہم اس دوران یوکرین کو فوجی سازوسامان کی ترسیل بھی جاری رکھے گا۔ روسی صدر اس پر کہہ چکا ہے کہیوکرین میں امریکہ اور نیٹو جو کچھ کر رہے ہیں کیا وہ سمجھتے ہم اسے خاموشی سے دیکھتے رہیں گے۔ انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہمارے پاس پیچھے ہٹنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارا مقصد خونریزی سے بچنا اور سفارتی راستہ تلاش کرنا ہے لیکن اگر ہمارے خلاف مغرب کی جارحانہ لائن جاری رہی تو ہم ان غیر دوستانہ اقدامات پر سخت ردعمل کا اظہار کریں گے۔ روس نے نیٹو کو سرخ لکیریں عبور نہ کرنے کا کہا ہے اور ضمانتیں مانگی ہیں کہ نیٹو میں یوکرین اور جارجیا کو شامل نہیں کرے گا، مشرقی یورپ میں فوجی سرگرمیاں ترک کر دے گا، اور یوکرین یا روس کے دیگر پڑوسی ملکوں میں دفاعی نظام نصب نہیں کرے گا جس سے روس کو خطرہ ہو۔چینی رہنما بھی کہتے ہیں وہ کسی کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتے ہیں نہ جنگ کی خواہش۔ اس سے پہلے جب جی سیون ممالک نے چین پر تنقید کی تو چین نے اسے چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا اور کہا کہ وہ وقت گزر گیا جب جی سیون جیسے چھوٹے ممالک کے گروپ دنیا کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتے تھے۔ چین کسی کیلئے چیلنج نہیں بنے گا لیکن اگر کوئی چیلنج ہمارے قریب آیا تو ہم ہاتھ باندھ کر بیٹھے بھی نہیں رہیں گے۔ان حالات میں تجزیہ کاروں کے مطابق آبنائے تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین میں جہاز رانی کے حقوق پر امریکہ چین اور یوکرین کے مسئلے پر امریکہ روس محاذ آرائی بڑھنے کا خطرہ ہے‘امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے سوویت یونین ساتھ سرد جنگ میں اس کا تجارتی بائیکاٹ کیا تھا جس سے سوویت یونین کی معیشت متاثر ہوئی مگر اب چین تقریبا پندرہ ٹریلین ڈالرز کی معیشت کے ساتھ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور کورونا وائرس کے باوجود اس کی معیشت کی شرح نمو جاری ہے۔ 2020 میں چین کو امریکی برآمدات 125 ارب جبکہ چین سے درآمدات 436 ارب ڈالر رہیں۔خطے میں چین، روس، پاکستان، ترکی اور ایران جیسے ممالک پر مشتمل ایک نیا اتحاد ابھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ روس کا سابق اتحادی بھارت غیر وابستہ تحریک چھوڑ کر ہند بحرالکاہل اتحاد کواڈ میں شامل اور امریکہ کا تزویراتی اتحادی بن چکا ہے جبکہ چین اور پاکستان کے ساتھ روس کے تعلقات، تجارت اور دفاعی تعاون میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خود امریکہ کا دوغلاپن بھی ایک مسئلہ ہے۔ وہ چین پر سنکیانگ اور ہانک کانگ میں انسانی حقوق کے حوالے سے تنقید کررہا ہے لیکن جب مغربی ممالک چین کو 2001مین عالمی تجارتی ادارے کی رکنیت اور اپنی معیشتوں تک رسائی دے رہے تھے تو انہوں نے جمہوری اصلاحات پر ضمانتیں نہیں مانگیں۔