عالمی سطح پر مالیاتی نظم و ضبط لاگو کرنے کی کوششیں ایک ایسے عالمی منشور کا جز ہیں‘ جس سے الگ ہو کر کوئی بھی ملک برآمدات کی صورت تجارتی تعلقات قائم نہیں رکھ سکتا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کی حکومتی سرپرستی روکنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ جس کیلئے عالمی سطح پر ایک بندوبست متعارف کرایا گیا ہے کہ مالیاتی نظام کو دستاویزی صورت دینے اور اس میں شفافیت پیدا کرنے کیلئے ”فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف)“ قائم کی گئی ہے اور پاکستان اس کے ایشیا پیسفک گروپ کا رکن ہے۔ ’ایف اے ٹی ایف‘ اپنے ہر رکن ملک کو منی لانڈرنگ‘ دہشت گردی کی مالی معاونت اور مالیاتی نظام میں خامیوں کو دور کرنے کے حوالے سے چند نکات پر عملدرآمد کے لئے کہتا ہے۔ جو رکن ملک تمام نکات پر عمل کرتے ہیں انہیں ایف اے ٹی ایف کی سفید فہرست کا حصہ بنا دیا جاتا ہے جبکہ جن ملکوں کے نظام میں کسی حد تک کمی ہو تو ان کا نام گرے لسٹ میں درج کردیا جاتا ہے۔ سال دوہزاراٹھارہ میں پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا۔ جب پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کا حصہ بنا تو موجودہ وزیرِاعظم نے اس وقت کی حکومت پر کڑی تنقید کی مگر وزیرِاعظم بننے کے تین سال بعد بھی پاکستان وہیں کھڑا ہے جہاں دوہزاراٹھارہ میں تھا یعنی تاحال گرے لسٹ میں شامل ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان کے کل چونتیس نکات تھے۔ جن میں سے باقی رہ جانے والے سات نکات میں سے چار نکات پر پاکستان مقررہ ٹائم لائن سے قبل عمل درآمد کرنے میں کامیاب رہا بقیہ تین نکات پر کام جاری ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے ترمیم شدہ میوچل لیگل اسسٹنٹ ایکٹ پاس کرلیا ہے۔ انٹی منی لانڈرنگ اور انسدادِ دہشت گردی فنانسنگ کے حوالے سے غیر بینکاری مالیاتی اداروں کی نگرانی‘ بینیفیشل اونرشپ کی معلومات کی فراہمی میں شفافیت پر کام مکمل ہوگیا ہے۔ سال 2021ء کے ایکشن پلان میں منی لانڈرنگ مقدمات کے حوالے سے پیشرفت اور اقوامِ متحدہ کی دہشت گردوں سے متعلق فہرست میں شامل افراد کے اثاثوں کی ضبطگی بھی شامل ہے۔ ’ایف اے ٹی ایف‘ کی جانب سے جس مالیاتی نظم و ضبط کو لاگو کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اُس میں غیرقانونی ذرائع سے سرمائے کی بیرون ملک منتقلی روکنا سب سے زیادہ ضروری ہے اور حالیہ چند ماہ میں پاکستانی روپے کی قدر میں اضافے کی وجہ بھی یہی ہنڈی حوالے اور سٹے بازی کا رجحان بنا ہے جس کی وجہ سے وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) نے غیر قانونی کرنسی کے کاروبار کے خلاف مہم شروع کی لیکن یہ مہم اِس قدر تاخیر سے شروع کی گئی کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 181 روپے 30 پیسے جیسی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور پاکستانی روپے کے شرح تبادلہ پر دباؤ برقرار ہے۔ ایف آئی اے نے رواں ماہ کے دوران ایجنسی 158افراد کو گرفتار کیا اور ملک بھر میں تیس کروڑ روپے کی مقامی اور غیر ملکی کرنسی ضبط کی تاکہ روپے کو ڈالر کے مقابلے میں مستحکم کیا جاسکے۔ ذہن نشین رہے کہ غیر قانونی کرنسی کے کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن اس خدشے کے باعث کیا گیا کہ ڈالر کو ذخیرہ کر کے ملک سے باہرسمگل کیا جارہا ہے۔ سال 2021ء کے دوران ایف آئی اے نے مجموعی طور پر ایک ارب تیس کروڑ روپے ضبط کئے جبکہ دس ہزار سے زائد ٹرانزیکشنز کی جانچ پڑتال کی گئی ہے جبکہ وفاقی حکومت نے ایف آئی اے سے کہا ہے کہ وہ فارن ایکسچینج کمپنیوں کے آپریشنز کو دیکھے۔ ایف آئی اے نے ایکس چینج کمپنیوں کی خرید و فروخت کے ریکارڈ کا معائنہ کیا اور پانچ ’اے‘ کیٹیگری اور اُنتیس ’بی‘ کیٹیگری کی فاریکس کمپنیوں کی جانچ پڑتال کی۔ قابل ذکر ہے کہ دوہزاراکیس کے دوران ایف آئی اے نے مشکوک ٹرانزیکشن رپورٹس (ایس ٹی آر) کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کے بعد بڑی تعداد میں مشکوک ٹرانزیکشنز کی چھان بین کی اور ان کثیرالجہتی پیچیدہ مالیاتی ٹرانزیکشنز کی انکوائریوں کے بعد مقدمات درج کئے گئے لیکن یہ سبھی کوششیں کافی نہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے پاکستان میں معاشی اصلاحات کیلئے جوایجنڈ تشکیل دیا ہے اس میں تیزی کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت کے تین سال اِس بات کے گواہ ہیں کہ مالیاتی نظم و ضبط لاگو کرنے کے لئے حکومتی کوششیں ایک حد تک ہی کامیاب دکھائی دیتی ہیں جبکہ مالیاتی نظم و نسق سے عام آدمی (ہم عوام) کا تعلق ہے۔ کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں کہ تاحال عام آدمی معیشت میں بہتری‘ روزگار اور تنخواہوں میں اضافے‘ علاج کی بہتر سہولیات اور مہنگائی میں کمی کے خواب دیکھ رہا ہے۔ موجودہ معاشی منظرنامے کو مدِنظر رکھیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان آئندہ سال یعنی دوہزاربائیس میں بھی ایسی ہی پیچیدہ معاشی صورتحال سے دوچار رہ سکتا ہے۔