نئی نسل پر اعتماد کریں 

رات کے وقت اندھیرے کا راج تھا۔مگر ان کی شکلیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ ہر چند کہ وہ پہچانے نہیں جا سکتے تھے۔ مگر کوئی پہچان بھی لیتا تو کیا کرلیتا۔ رات کا گور اندھیرا ہو یا شبِ ماہتاب کی چاندنی جھلکتی پھوار ہو۔پھر دن کا اُجالا کیوں نہ ہو۔ایک کھیت کی باڑ پر نیچے پانی سے پاؤں  بچا کر وہ تینوں کھڑے تھے۔ جب میں وہاں سے آگے بڑھا تو ساتھ والے کھیت کے کنارے پر ایک اور بھی کھڑا تھا۔ ان کو کون پوچھ سکتا ہے کہ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔کیوں کھڑے ہیں کب تلک کھڑے رہیں گے۔کچھ نہ کچھ تو کر ہی رہیں ہوں گے۔رات کے اس سمے تو ان کا یہاں کھڑے ہونا میرے نزدیک برا نہیں تھا۔کیونکہ ان بے قابو جوانیوں میں سے بعض تو اس وقت کہیں کسی چوروں والے موڑ پر چاقو سونت کر اور پستول تان کر راہگیروں کی جیبیں خالی کر دیتے ہیں۔پھر اس خیال سے کوئی نہ کوئی تواتفاق کرے گا کہ ا س  علاقے میں اگر یہ نوجوان کھڑے اپنے مشغلے میں مصروف تھے توان پر اعتراض کی گنجائش کیوں نکلے گی۔ ان کے چہروں پر ہلکی سی روشنی پڑ رہی تھی۔اہلِ علاقہ ان کو پہچان سکتے تھے۔پھر ضرور جانتے ہوں گے۔کیونکہ بیچ کی سڑک پر سے گذرنے والا میں ہی راہگیر تھا۔ باقی ماندہ یہاں کے رہائشی تو ان کی چال ڈھال سے ان کو خوب جانتے ہوں گے۔بلکہ ان کے چال چلن سے بھی واقف ہوں گے۔ان میں سے ایک طالب علم لگتا تھا۔ اس لئے کہ اس نے گھر واپسی پر یونیفارم تبدیل نہیں کیاتھا۔ پھر یونیفارم کی مزید تصدیق یہ کہ اس نے اپنا نیلا سویٹر اس سردی کی ٹھٹھرنے والی شام میں عین کھلی ہوا کے دوش پر اتار کر اپنے گلے کاہار بنا کر اس کو مفلر کی صورت میں اپنے گرد گھما رکھا تھا۔مجھے شعیب بن عزیز کا وہ شعر یاد آنے لگا ”اب اُداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں۔اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں“۔میں تو کہتا ہو ں کہ موبائل کے استعمال کے معاملے میں اب وقت آگیا ہے کہ نئی نسل پر کچھ نہ کچھ اعتماد کیا جائے۔ پھر مجبوری میں بھی کرنا ہوگا۔ ہم نے اعتماد نہیں بھی کیا تو یہ عالمی وائرس اس طرح ہمارے وطن کا رخ کربیٹھا کہ اب تو ایک جگہ ایک کمرے میں یا کھلے کھیتوں میں دس بندے کھڑے ہوں توان کے ہاتھ میں دس الگ الگ موبائل ہوں گے۔جیساکہ یہاں کھیتوں کی حد بندی پر بھی جن چار نوجوانوں کاذکر کیاان کے ہاتھ میں بھی جدا جدا چار عدد موبائل فون تھامے ہوئے تھے۔کیونکہ اب موبائل میں سرچ بھی تو ہوتا ہے۔خاص کر طالب علموں کیلئے یہ بہت زبردست ایجاد ہے۔جس کے جام میں وہ جامِ جمشید سا پوری دنیا کا نظارہ کر سکتے ہیں۔اپنے اپنے کورس کے حوالے سے وہ اس میں سے بہت کچھ تلاش کر سکتے ہیں۔اگر کوئی طالب علم اپنے ادارے کے سبزہ زار میں موبائل سیٹ لے کر بیٹھاہے۔ وہاں اس سے موبائل چھین کر اس کو جرمانہ کرنا درست نہ ہوگا۔ کیونکہ اس کا جواب یہی ہوگا کہ میں تو سرچ کررہا تھا۔پھر ان کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کی بات ہی کیا ہے۔ یہ ہاتھ اب علم سے رنگے ہو سکتے ہیں مگر خون سے رنگے ہونے سے کہیں بہتر ہیں۔پھر ان کو جا تھامنے والے کے پاس قانونی طور پر کوئی ثبوت بھی تو نہیں کہ یہ سٹوڈنٹ اس جامِ جمشید میں کیا دیکھ رہاتھا۔کھیتوں میں طالب علم ہو سکتے ہیں اور شہری آبادی میں بھی طالب علم ہوتے ہیں۔ان کی مقررہ شکلیں نہیں ہوتیں کہ ان کوبغیر یونیفارم کے پہچان لیا جائے۔ پھر اگر آپ ان کی مخالفت کو کاندھے پر جال لے کر انھیں پکڑنے نکلے ہیں تو اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔اگر آپ کو پکڑ دھکڑ کا بہت شوق ہے تو ذراسامنے آئیں اور اس موبائل کے کاروبار کو اس ملک عزیز میں سرے سے بند کر کے دکھا دیں۔ اگر زیادہ اصلاحِ احوال کا شوق ہے تو خود اپنا موبائل ہی اینٹ پر اینٹ رکھ کر توڑ ڈالیں۔یہ تو ہماری ہلہ شیری ہے او رہمارا آشیر باد ہے کہ یہ لوگ یہ فون استعمال کرتے ہیں۔کسی سے موبائل لے کر اس کو ادارے کے چیئرمین کے رُوبرو پیش کرنے سے طورسم خان بننا ناکام کوشش ہے۔کیونکہ آپ کو جواب ملے گا کہ ہماری خاندانی دشمنی ہے۔ماں باپ نے اس لئے لیکر دیا ہے کہ میں ان کیساتھ رابطہ میں رہوں۔اس طرح کے دسیوں جوابات آپ کے منتظر ہوں گے۔ لہٰذا اگر آپ سامنے والے پر جو آپ کے پاس یا ساتھ رہتا ہے۔پھر ہمہ وقت نزدیک ہو تو اس پر اعتماد کرنے کا موقع ہے۔ایسے میں اس کا حق بنتا ہے کہ ا س پر اعتماد کیا جائے۔بیس فلیٹ والی بلڈنگ کے نیچے جب دکانیں شام سمے بند ہوئیں تو وہاں کے برآمدے میں سیڑھیوں پر چند نوجوان بیٹھ کر موبائل کی روشنی میں اپنی آنکھیں گم کئے بیٹھے تھے۔ یہی طالب علم کھیتوں میں بھی ہیں اور شہری عمارات کے سائے تلے بھی پروان چڑھ رہے ہیں۔اگر ہم دوسری اقوام کی طرح کہ جنھوں نے موبائل فون بنا کر ہمارے ہاں بھیجا ہے ترقی کرناچاہتے ہیں تو نئی نسل پر اعتماد کرنا ہوگا۔ وگرنہ اعتبار نہ بھی کریں تو اس سے کچھ فرق پڑنے والا نہیں ہے۔اگر ہم نے اس طرح ترقی کرناہوگا تو اس قوم کو اس شاہراہ پر جانے سے روکنے والا کوئی نہیں۔۔۔