سالنامہ:عرب دنیا

سال 2021ء کی سب سے اہم بات یہ قرار دی جا سکتی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک نے بالآخر ایک دوسرے سے بات چیت پر آمادگی کا اظہار کیا ہے اور اس تبدیلی کی بنیادی وجہ عراق و افغانستان سے غیرملکی افواج کا انخلا ہے۔ شام کے بشارالاسد اور لیبیا کے سابق مرد ِآہن معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام قذافی ابھر کر سامنے آچکے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کا سوئٹزرلینڈ کہلوانے والا لبنان معاشی تباہی کی المناک داستان بن چکا ہے۔ ایران اپنے سخت گیر صدر ابراہیم رئیسی کی قیادت میں جوہری پروگرام پر اپنے مؤقف میں مزید سختی لا چکا ہے۔ ویانا میں ایرانی جوہری پروگرام پر مذاکرات کے باوجود اسرائیل ایران پر حملے کی دھمکی دے رہا ہے جبکہ ایران گلف میں جنگی مشقیں کر رہا ہے‘ جنہیں پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی تل ابیب کے لئے کھلی وارننگ قرار دے رہے ہیں اور یوں خلیجی ممالک پر جنگ کے بادل منڈلاتے نظر آ رہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کا تیسرا بڑا کھلاڑی عرب امارات ہے۔ عرب امارات ایران کے ساتھ ورکنگ ریلیشن بھی بنا رہا ہے اور ایران کو روکنے کی کوششوں میں بھی کردار ادا کر رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں عرب امارات سفارتی محاذ پر سب سے زیادہ سرگرم رہا ہے۔ عرب امارات ان دنوں شام کو دوبارہ عرب لیگ میں واپس لانے کے لیے کوشاں ہے جس سے اس کے کئی مقاصد جڑے ہیں اور خطے کی سیاست نیا موڑ لے سکتی ہے لیکن عرب امارات کا سب سے بڑا اتحادی امریکہ خطے میں پیچھے ہٹ رہا ہے جبکہ روس اور چین پیش قدمی کر رہے ہیں۔ ان حالات میں عرب امارات سعودی عرب کا دست نگر بن کر نئے اتحاد میں جانے کے بجائے اپنے لئے ہاتھ پاؤں مار کر بڑا کردار لینا چاہتا ہے۔ عرب امارات دراصل سب جھگڑوں سے جان چھڑا کر آگے بڑھنے کا خواہاں ہے۔ اس طرح ایک اور جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا وہ مشرق وسطیٰ میں چین کا بڑھتا ہواکردار ہے۔ امریکہ نے افغانستان سے واپسی کے بعد عراق میں پسپائی اختیار کی اور لگتا یوں ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اس کا کردار محدود ہونے  جارہاہے اور چین یہاں پر پوری تیار کے ساتھ موجود ہے۔ روس پہلے ہی مشرق وسطیٰ میں اپنا اثررسوخ ثابت کر چکا ہے اور اس کی تازہ ترین مثال شام میں بشار الاسد کی حکومت ہے جسے نہ صرف روس نے برقرار رکھنے میں مدد فراہم کی ہے بلکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بھر پور طاقت کے سامنے روس نے اپنے جنگی طیارے اور فوجی ساز سامان بھیج کر ثابت کیا کہ مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔روس نے بشار الاسد کی حکومت کو جو تحفظ فراہم کیا اس سے مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کوحوصلہ ملا ہے اور وہ امریکہ کی آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے امریکہ کے دفاعی سودے کوٹھکرا کر جو مثال قائم کی ہے اس کا ماضی قریب میں تصور بھی ناممکن تھا۔ کہ ایک امریکہ کا پکا اتحادی ملک اس کے ڈیل کو مسترد کردے اور اسکی وجہ یہ تھی کہ متحدہ عرب امارات چین قریبی تعلقات استوار کرچکا ہے اور اب وہ اس کی قیمت پر امریکہ کے ساتھ دوستی نبھانے کیلئے تیار نہیں۔خبریں آئیں ہیں کہ چین نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ قریبی دفاعی تعلقات استوار کررکھے ہیں اور وہاں اس نے ایک فوجی اڈہ بھی تعمیر کیا ہے جس پر متحدہ عرب امارات اور امریکہ کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں اور اس نے امریکہ کے بڑے دفاعی سودے کو مسترد کرتے ہوئے اس کے سب سے جدید ترین طیاروں ایف 35کو خریدنے سے انکار کر دیا۔ا س سے قبل امریکہ ترکی کے ساتھ بھی ان طیاروں کے ڈیل کو ختم کرچکا ہے۔ یوں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امریکہ کے سپر پاور کی حیثیت کو افغانستان سے نکلنے کے بعد جو جھٹکا لگاہے وہ ابھی جاری ہے اور مزید جھٹکے لگنے کا امکان بھی غالب ہے۔