آج میں تیس پچیس سال پہلے والے اسلام آباد کو شاید بہت پیچھے چھوڑ آئی ہوں‘ جب عید کے آخری دن آ جاتے تھے تو اسلام آباد خالی ہونا شروع ہو جاتا تھا‘ ان دنوں یہ پردیسیوں کا شہر کہلاتا تھا جنہوں نے اپنی زندگی کے ہر دکھ سکھ کیلئے پیچھے اپنے گاؤں‘ دیہاتوں اور شہروں میں جانا لازمی ہوتا تھا۔ ہم لوگ بھی انہی پردیسیوں میں شامل ہوتے تھے‘ فرق یہ تھا کہ ہم عید کے دن نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر پشاور کی طرف اُڑان بھرتے تھے۔ میں اکثر ہی ریڈیو پاکستان میں چاند رات کی اہم ڈیوٹیاں سنبھالنے کیلئے تیار ہو جاتی تھی تاکہ میرے دوسرے شہروں میں رہنے والے مسافر کولیگ آسانی سے اپنے خاندان کے ساتھ عید منا سکیں‘ اگر میں دفتر نہ جا سکتی تو ٹیلی فون پر اپنی ذمہ داریاں نبھانے کیلئے تیار ہوتی۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائی کا اسلام آباد خوبصورت‘ دلنشین‘ خاموش اور مہذب ہوتا تھا‘ ہم اکثر ہی اپنے بچوں کو چڑیا گھر لے جاتے اور جانوروں کو قریب سے دیکھنا‘ پرندوں کو اپنے ہاتھوں سے دال کھلانا‘ لمبے چکر کے بعد موروں کے پنجرے کے پاس آ کر اس کے پر پھیلانے کا انتظار کرنا اور سب سے بڑھ کر بندروں کی قلابازیاں اور چالاکیاں دیکھنا‘ بڑوں اور بچوں دونوں کو محظوظ کرتا تھا۔ ساتھ ہی جاپانی پارک تھا اب بھی موجود ہے‘ میری کوشش ہوتی کہ میں ہفتہ اتوار کے علاوہ عام دنوں میں ان جگہوں پر جاؤں‘ اس طرح رش نہ ہونے کے باعث قدرت کو قریب سے دیکھنے کے وافر مواقع میسر آ جاتے۔ بچے کھیلتے رہتے اور میں گھوم پھر کر پارک کی تمام سہولتوں‘ سرسبز روشوں اور اونچے درختوں کو دیکھتی رہتی۔ ایک دفعہ احمد فراز کو میں نے اسی پارک کے ایک کنج میں دیکھا تھا تو میں خوش ہوئی تھی کہ ایک بڑے شاعر کو قریب سے دیکھا ہے۔ جب ریما اور شان بالکل نئے نئے فلمی دنیا میں داخل ہوئے تھے تو ان کا فلمی یونٹ فلم بلندی کی شوٹنگ کیلئے وہاں آ گیا تھا‘ محترمہ نیلو صاحبہ اور دوسرے تمام لوگ سارا دن پلے لینڈ میں گانوں کی پروڈکشن میں مصروف رہے۔ اس دن پارک میں میرے اور بچوں کے علاوہ کوئی بھی نہ تھا‘ بعد میں یہ جوڑی بہت مشہور ہوئی‘ میں نے نیلو کو دیکھا ہاتھ ہلا دیا‘ قریب نہیں گئی مبادا وہ ڈسٹرب نہ ہو۔ اسی طرح اسلام آباد کی کسی مارکیٹ‘ کسی پارک میں بھی خاص لوگ آیا کرتے تھے‘ گاڑیاں بھی کم لوگوں کے پاس ہوتی تھیں اور لوگ سرشام سو بھی جایا کرتے تھے بلکہ اسلام آباد کو شہر خموشاں بھی کہا جاتا تھا۔ سپر اور جناح سپر مارکیٹیں اس شہر کی شان اور بان ہوتی تھیں‘ لوگ آتے تھے گھنٹوں گھومتے تھے‘ ایک دوسرے کو پہچان لیتے تھے‘ رمضان میں تو سحری تک یہ شور شرابہ جاری رہتا تھا لیکن عید پر یہ شہر ویران صحرا کا سماں پیش کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے میں ڈبل روٹی‘ دودھ اور روزمرہ کی دوسری ضروری اشیاء دس پندرہ دنوں کے لئے سٹاک کرتی تھی کہ پشاور سے واپس آؤں گی تو سب دکانیں بند ہوں گی‘ دکانیں اور مارکیٹیں عید کے بعد کئی روز تک بند رہتی تھیں کیونکہ سارا شہر ویران ہو جاتا تھا اور لوگ بھرپور چھٹی گزارنے کے بعد واپس اپنے دفاتر میں آتے تھے۔ یہ خوبصورت زمانہ تھا جب اسلام آباد میں کنسٹرکشن زورں پر تھی‘ یہاں کے کئی دفاتر میرے سامنے شروع ہوئے اور میں نے ان کو بتدریج بنتے ہوئے دیکھا۔ یہی حال سڑکوں کا تھا‘ کچی پکی پگڈنڈیاں‘ خوبصورت رستے‘ بہت سے شارٹ کٹس سے نکل کر منزل تک پہنچ جایا کرتے تھے۔ سی ڈی اے سیکٹر اناؤنس کرتا تھا اور پھر سرکاری ملازمین‘ عام لوگ اپنے اپنے کوٹے کے حساب سے فارم بھر بھر کر ان سیکٹرز کے گھر خریدنے کی لائن میں لگ جاتے تھے‘ پھر سی ڈی اے ان کو ایک خط کے ذریعے گھر بنانے کے احکامات جاری کرتا تھا‘ سڑکیں اس وقت تک سی ڈی اے نہیں بناتا تھا جب تک بجلی‘ سوئی گیس نہیں آ جاتی تھی اور تمام گھر بھی مکمل نہیں ہو جاتے تھے۔ خوبصورت پکی گلیوں کو دیکھ کر پتہ چلتا تھا کہ زندگی کی تمام سہولتیں اس سیکٹر میں آ چکی ہیں‘ قواعد اور ضوابط سخت ہوتے تھے۔ اسلام آباد کے پلاٹ بہت شروع 1960-70ء میں تو ہزاروں روپوں کے ہوتے تھے‘ بعد کے آنے والے سالوں میں کچھ لاکھ کے ہوتے تھے اور وہ بھی قسطوں میں ادائیگی کرنا ہوتی تھی۔ 1990ء کی دہائی کے آخر تک ڈبل سٹوری گھروں کی قیمتیں بھی 4 لاکھ سے 10 لاکھ تک تھیں‘ اسی طرح کمرشل جائیدادیں بھی زیادہ مہنگی نہ تھیں‘ سمجھدار لوگوں نے اپنی آنے والی نسلوں کیلئے بڑی خوبصورت مارکیٹوں‘ بلیو ایریا اور ہر سیکٹر میں بننے والے کمرشل یونٹس کو خریدا‘ آج ان کی قیمت کروڑوں میں ہے اور کرائے لاکھوں میں ہیں۔ آج جو سیکٹرز یورپ کے گھروں اور سڑکوں کو بھی پیچھے چھوڑتے ہیں وہ سب 1990ء کی دہائی کے آخر تک جنگل ہوتے تھے‘ پھر اسلام آباد نے ترقی کی کینچلی بدلی اور سی ڈی اے کی طرف سے سیکٹرز کھلنے کے سرکاری اعلان بند کر دیئے گئے‘ اب فائر بریگیڈ کے ایک بہت بڑے ہال میں تمام پلاٹ اور کمرشل یونٹس سی ڈی اے بولی کے ذریعے پیش کرنے لگا‘ اس میں پہلے پہل تو لوگ تفریحاً شامل ہوتے تھے بعد میں سی ڈی اے نے صرف 10 ہزار ٹوکن منی جمع کرانے والے کو ہی بیٹھنے کا حق دیا‘ اس طرح ماحول خراب کرنے والے لوگوں کا داخلہ خود بخود کم ہوتا گیا۔ اس طریقہ کار کے ذریعے بھی ایک ایک کنال کے پلاٹ بھی 18 سے 25 لاکھ تک فروخت ہوتے جو اس وقت کے مہنگے ترین پلاٹ تھے جو بھی یہ قیمت سنتا تھا حیرت زدہ رہ جاتا تھا کہ اسلام آباد اس قدر مہنگا ہو گیا ہے لیکن زمانے کی دوڑ بہت تیز ہوتی ہے اور اسلام آباد کو تو زمانے نے اس تیزی کے ساتھ آگے کی طرف دوڑایا کہ اب صرف 5 مرلے کا گھر دو سے تین کروڑ روپے کا ہے‘ کرایہ بعض سیکٹروں میں ڈالرز میں لیا جاتا ہے۔ عام سے گھر کا کرایہ چالیس سے پچاس ہزار روپے تک ہے جو دو دو‘ تین تین کنال کے گھر ہیں ان کے کرائے لاکھوں میں ہیں۔ اب سرکاری سیکٹرز کھلنا بند ہو گئے ہیں‘ بولی لگا کر بھی خرید و فروخت کب کی بند ہو چکی ہے۔ اب لوگ براہ راست گھروں اور پلاٹوں کی قیمت کروڑوں میں لگاتے ہیں‘ سرکاری ملازمین کیلئے تو یہاں دو مرلے جگہ خریدنا بھی ناممکن ہو کر رہ گیا ہے۔ کچے راستوں اور سرسبز و شاداب شہر پکی سڑکوں اور اونچی بلڈنگز میں تبدیل ہو چکا ہے‘ اسلام آباد خوبصورت ہو گیا ہے سرسبز اسلام آباد چھپ گیا ہے۔