گزشتہ کئی برس سے مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی وادی میں ظلم اور بربریت کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور اس کی شدت میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے اور دنیا خاموش ہے اکثر احساس ہوتا ہے کہ نریندر مودی کی شکل میں آج برصغیر میں ایک اور ہٹلر موجود ہے کیونکہ بادی النظر میں مودی مسلمانوں کے ساتھ اسی قسم کا سلوک کر رہا ہے کہ جو دوسری جنگ عظیم سے پہلے یا اس کے دوران ہٹلر نے کیا تھا یہ نہیں کہ دنیا کو اس کی خبر نہیں شاید ہی دنیا کا کوئی ملک ایسا ہو کہ جس کے میڈیا میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کی داستان تواتر کے ساتھ چھپتی نہ ہو نجانے اس مسئلے پر دنیا کو کیوں سانپ سونگھ گیا ہے کوئی بھی ملک ٹس سے مس نہیں ہو رہا ‘ اس ضمن میں امریکہ کی اسلام دشمنی کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ جب مودی بھارتی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے اور ان کے اس دور اقتدار میں جب احمدآباد میں مسلمانوں کو جن ہندو انتہاپسندوں نے گاجر مولی کی طرح کاٹا تو ابتدا میں تو امریکہ میں مودی کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی پر دنیا کو اس وقت حیرت ہوئی جب مودی کو امریکہ کا دورہ کرنے کی اجازت دی گئی اسے گلے لگایا اور وہاں اس کے جلسہ عام میں ایک تقریر بھی جھاڑدی۔حقیقت یہ ہے کہ اگر بھارت کے رویے کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمی برداری نے اس کے ساتھ رویہ سخت رکھا تو وہ خود سمجھ جئیں گے اور آئندہ کیلئے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرسکتے ہیں۔تاہم عالمی برداری کا دوغلا پن ہے کہ اس نے بھارت کو ہٹ دھرم بنا دیا ہے اور وہ کسی بھی قاعدے اور قانون کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔اورتو او ر امریکہ نے گزشتہ دنوں جب جمہوریت کے حوالے سے کانفرنس کا انعقاد کیا تو ا س میں بھارت کو نمایاں رکھا۔ اور اس امر سے یکسر آنکھیں بند رکھیں کہ بھارت میں اقلیتوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی گئی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اب عیسائیوں کو بھی ہند و انتہا پسندوں نے نشانے پر رکھ لیا ہے اورہو سکتا ہے کہ اب یورپی ممالک کچھ سوچنے پر مجبور ہوں۔ ورنہ تو بھارت کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ وہ جو چاہے کرے اور اس کی وجہ بھارت کی منڈی ہے جس میں دنیا کی معاشی طاقتوں کی کوشش ہے کہ ا س میں اپنا حصہ نکالیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی ادارے بھارت کی حقیقت کو تسلیم کریں کہ وہاں پرانسانی حقوق کی جو خلاف ورزیاں ہورہی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے بھارت پر پابندیاں عائد کی جائیں۔اس وقت ان ممالک کو پابندیوں کاسامنا ہے جن کی امریکہ سے اختلافات ہیں۔ جس نے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات استوار رکھے ہیں ان ممالک میں اگر انسانی حقوق پائمال بھی ہورہے ہوں تو انہیں کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔