نیا سال ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سیکھنے اور اس کی مدد سے آئندہ کے لئے بہتر منصوبہ بندی کا موقع دیتا ہے۔ پاکستان میں جب اور جہاں کہیں کھیل کا ذکر کیا جاتا ہے تو اِس کا مطلب صرف کرکٹ ہوتا ہے! پاکستان کرکٹ کے لئے سال دوہزاراکیس کا آغاز بہت ہی مایوس کن تھا جب نیوزی لینڈ دورے کا دوسرا ٹیسٹ تھا جو دراصل دوہزاراکیس میں کھیلا گیا پاکستان کا پہلا میچ تھا۔ یہاں پاکستان کو ہوئی ایک اننگ اور 176رنز کی کراری شکست اور ساتھ ہی سیریز میں دو صفر کی ہار بھی سہنا پڑی۔ نیوزی لینڈ نے اپنی واحد اننگ میں 659رنز بنائے جس میں کپتان کین ولیم سن کی 238رنز کی یادگار اننگ بھی شامل تھی۔ پاکستان دو مرتبہ کھیل کر بھی نیوزی لینڈ کے مجموعے کے قریب تک نہ بھٹک پایا اور دوسری اننگ میں محض 168رنز پر ڈھیر ہوکر شکست کا طوق گلے میں ڈال لیا۔ نیوزی لینڈ کے ہاتھوں پے در پے زخم کھانے کے بعد پاکستان کو اب ایک تاریخی سیریز کھیلنا تھی کیونکہ جنوبی افریقہ دوہزارسات کے بعد پہلی بار پاک سرزمین پر کھیلنے کے لئے آ رہا تھا۔ یہاں پاکستان نے نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست کے بدلے ہوم گراؤنڈ پر جنوبی افریقہ سے لئے۔ کراچی میں ’ہوم بوائے‘ فواد عالم کی سنچری کی بدولت پاکستان نے سات وکٹوں سے کامیابی حاصل کی اور پھر راولپنڈی ٹیسٹ حسن علی کی تباہ کن باؤلنگ اور رضوان کی پہلی ٹیسٹ سنچری کی بدولت پچانوے رنز سے جیت لیا اور یوں سیریز بھی دو صفر سے اپنے نام کرلی۔ گوناگوں مسائل سے دو چار جنوبی افریقہ میں ماضی والا دم خم نظر نہیں آیا اور پاکستان نے ٹی ٹوئٹنی سیریز میں بھی ایک دو سے کامیابی حاصل کرکے دورہ نیوزی لینڈ کا غم کافی حد تک ہلکا کردیا۔پاکستان بنا کسی تیاری کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2021ء کھیلنے کے لئے متحدہ عرب امارات پہنچا۔ یہاں پاکستان کا پہلا مقابلہ ہی روایتی حریف بھارت سے تھا یعنی ایسی ٹیم سے جس کے خلاف وہ کبھی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کوئی میچ نہیں جیت پایا۔ لیکن اس مرتبہ پاکستان نے تاریخ کا دھارا پلٹ دیا۔ دبئی میں ہونے والے سال کے سب سے بڑے مقابلے میں پاکستان نے بھارت کو پوری دس وکٹوں سے شکست دے کر ایسی فتح حاصل کی جو نہ پاکستان نے کبھی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پائی تھی اور نہ کبھی بھارت کو کسی کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ شاہین آفریدی نے پہلے اوور میں روہت شرما‘ دوسرے اوور میں لوکیش راہل اور پھر آخر میں ویرات کوہلی کی بڑی وکٹیں حاصل کرکے کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ پھر پاکستانی اوپنرز رضوان اور کپتان بابر اعظم کی 152رنز کی ناقابل ِشکست پارٹنرشپ نے مہرِ تصدیق ثبت کی۔ یہ جیت پاکستانیوں کو مدتوں یاد رہے گی بلکہ بھارتیوں کو بھی۔ درحقیقت دوہزاراکیس کو پاکستان کرکٹ کا یادگار سال قرار دینے کے لئے یہ ایک فتح ہی کافی ہے۔ بھارت کے خلاف کامیابی نے پاکستان کے کھلاڑیوں میں بجلی سی بھر دی۔ اگلے میچ میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو بھی ہرا دیا اور یوں اپنے گروپ کے دونوں مشکل ترین میچ ابتدأ ہی میں جیت کر تہلکا مچا دیا۔ افغانستان کے مقابلے میں شکست کے جبڑوں سے فتح چھیننے کے بعد پاکستان نے نمیبیا اور سکاٹ لینڈ کو بھی ہرایا اور بغیر کوئی شکست کھائے سیمی فائنل تک پہنچ گیا۔ عین اس موقع پر جب لگتا تھا کہ آئندہ مقابلے محض خانہ پری ہوں گے‘ پاکستان تو ورلڈ کپ جیتا ہوا ہی ہے‘ ہمیشہ کی طرح آسٹریلیا پاکستان کے آڑے آ گیا۔ سیمی فائنل میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ دوہزاردس کی کہانی دہرا دی گئی اور آسٹریلیا پاکستان کو روندتے ہوئے فائنل تک پہنچ گیا‘ جہاں وہ پہلی بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ چیمپیئن بھی بن گیا۔ ورلڈ کپ سے دل گرفتہ ہو کر واپس آنے کے بعد پاکستان کا اگلا مشن دورہ بنگلہ دیش تھا‘ جسے کئی لحاظ سے یادگار دورہ کہہ سکتے ہیں۔ تمام ٹی ٹوئنٹی میچز جیتنے کے بعد پاکستان نے چٹاگانگ اور ڈھاکا میں ہونے والے دونوں ٹیسٹ میچ بھی بخوبی جیتے لیکن مقابلے بہت جاندار اور شاندار ہوئے پاکستان نے سال کا اختتام پر ویسٹ انڈیز کے دورہ پاکستان کے ساتھ کیا‘ جو تین ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلنے کے لئے کراچی پہنچا تھا۔ یہاں مایوس کن حد تک خالی میدانوں میں پاکستان نے سیریز جیت لی۔ ویسٹ انڈیز کو اپنے مشہور ترین کھلاڑیوں کی خدمات حاصل نہیں تھی‘ جو ورلڈ کپ میں شریک تھے۔پاکستان نے سال بھر میں کل 9ٹیسٹ میچ کھیلے اور 7 میں کامیابی حاصل کی جبکہ دو میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ون ڈے میں پاکستان کے لئے مجموعی طور پر یہ ایک مایوس کن سال رہا۔ اسے چھ میں سے صرف دو میچوں میں کامیابی حاصل ہوئی اور چار میں شکست کھائی۔ یہاں انفرادی سطح پر سال میں سب سے زیادہ رنز بابر اعظم نے بنائے جنہوں نے صرف چھ اننگز میں چارسو پانچ رنز اسکور کئے‘ اس میں ایک سو اٹھاون رنز کی بہترین اننگز بھی شامل ہے۔ باؤلنگ میں حیران کن طور پر حارث رؤف سب سے آگے نظر آتے ہیں جنہوں نے چھ اننگز میں تیرہ وکٹیں حاصل کیں۔ شاہین آفریدی نے اتنے ہی میچوں میں آٹھ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ حسن علی سات وکٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر نظر آتے ہیں۔ سال دوہزار اکیس میں آسٹریلیا نے جہاں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اپنے نام کیا وہیں پاکستان کی کارکردگی نے سب کے دل جیت لئے۔ پاکستان نے سال بھر میں کل اُنتیس ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز کھیلے جن میں سے بیس میں کامیابی حاصل کی اور صرف چھ میں شکست کھائی۔ اُمید یہی ہے کہ سال 2022ء پاکستان کرکٹ کے لئے کامیابیوں کے تسلسل کے ساتھ یادگار ثابت ہوگا۔