جو بچے ہیں وہی بچ گئے ہیں۔ وگرنہ یہاں تو ہر چوتھا بندہ کسی نہ کسی بیماری کے نرغے میں پھنسا ہوا ہے۔ اب بیماریاں بھی تو کسی ضروری کام کے لئے تخلیق ہوئی ہیں۔اس طرح دنیا کی آبادی قدرتی طور پر کنٹرول ہوتی ہے۔بندہ چالیس سال کی عمر تک تو کھاتا پیتا رہتا ہے۔ پتھر کھاؤ لکڑ کھاؤ ہضم ہو جائے گا۔ مگر چالیس کی دہائی میں داخل ہوتے بندہ بیماری یا بیماریوں سے بچ جانے کو فریاد کرتا ہے اور دہائی دیتا۔ ماضی کی بہ نسبت بیماریو ں کی شرح بہت زیادہ ہو چکی ہے۔اس کی وجہ ناقص خوراک اور ملاوٹ والی کھانے پینے کی اشیاء ہیں۔پھر دوسری طرف نئی نئی ادویات بھی ایجاد ہو چکی ہیں۔مگر ان کے سائیڈ ایفیکٹ بھی تو ہوتے ہیں۔بندہ آخر بھاگ کر کہاں جائے۔کوئی اگر بڑھاپے تک کسی بیماری کا شکار نہ ہونے پائے تو ایسا بھی ہوتا ہے۔بعض تو ماشاء اللہ نوے سال کی عمر کو کراس کرچکے ہیں پھر ٹھیک ٹھا ک ہیں۔ سرِ راہ ایک صاحب ملے۔بینک سے پینشن لینے آئے تھے۔مجھ سے پوچھا کس طرف جا رہے ہو۔ جیب چونکہ پیسوں سے بھاری تھی۔ سو اس بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے رکشہ میں سفر کرنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ میں نے کہا جناب آپ کہاں جانا چاہتے ہیں۔انھوں نے اپنے علاقے کا پتا بتلایا۔میں نے دوسری طرف جانا تھا۔مگر کہہ دیا ارے میں بھی وہیں جا رہاہوں۔ ہم روانہ ہوگئے۔راستے میں ان کے ساتھ بہت اچھی گپ شپ لگی۔سب باتوں میں خاص بات یہ تھی کہ ان کو شوگر بلڈ پریشر اور معدہ وغیرہ کی کوئی بیماری نہ تھی۔ وہ دو اداروں سے پینشن لیتے تھے۔ عمر ان کی پچاسی سال تھی۔ماشاء اللہ بہت رشک آیا کہ قدرت کی نشانیاں جا بجا بکھری پڑی ہوئی ہیں مگر ہم ان پر غور نہیں کرتے۔ باری تعالی کو نہیں دیکھا تو کیا اس کی قدرت کو تو دیکھا ہے۔مگر کچھ لوگ تو اس قدرت کو بھی نہیں دیکھتے۔ کیونکہ ان کے پاس اتنا وقت نہیں۔پھر وہ دیکھنابھی نہیں چاہتے۔ مگر جب میں ان کو گھر کے دروازے پرڈراپ کر کے واپس ہواتو دماغ کی مشینری نے ایک نئی سوچ کے تحت کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ یہ کہ بندہ آخر کب تک جی پاتا ہے۔بیماری نہ بھی ہو جوں برف کی سل اندر اندر کھلی ہوا میں پگھلتا جاتا ہے۔پھربڑھاپا اپنی جگہ ایک بیماری ہی تو ہے۔سانس لینے کے لئے بھی پٹھوں میں طاقت ہونا ضروری ہے۔مگر جب آخر آخر کسی بیماری کے نہ ہوتے ہوئے اتنی بھی توانائی نہ ہوپھر ”کب تک شمع جلی یاد نہیں“۔”اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات“۔شمع کے اندر کارخانہ دار نے اتنا موم رکھاہوتا ہے کہ وہ صبح تک رات کے اندھیرے کو روشنی میں تبدیل کر سکتی ہے۔جب سورج مشرق کی بالکونی سے اپنے چہرہ پر سے آہستہ آہستہ سیاہ نقاب اتارتا ہے تو اس کی روشنی جیل خانے کے روشن دان سے لگی آنکھیں بھی دیکھتی ہیں۔ پھرغریب کے گھر کی ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے بھی اس کا نظارا کیا جا سکتا ہے۔اس کی روشنی مفلوک الحال انسانوں کی جھگیو ں کی جھریوں میں سے بھی چھلنی کی طرح چھن کر آتی ہے۔تب تک شمع بجھ چکی ہوتی ہے۔ کیونکہ کارخانے والے نے بس ایک رات کے لئے اس میں موم کا بندوبست کررکھا ہوتا ہے۔نئے دن کے سورج کے طلوع ہونے پر اب موم بتی کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس لئے آنے والی رات کو نئی شمع یا نیا چراغ روشن کرنا ہوگا۔جس چراغ میں صبح تک کام چلانے والا تیل ڈالا گیا ہوتا ہے۔یہ زندگی بس کام ہی تو چلانا ہے۔ کسی کا کام جلد ختم ہوجاتا ہے اور کسی کا سو سال کے قریب ہوکر بھی ختم نہیں ہونے پاتا۔مگر بعض تو بہت جلدی میں ہوتے ہیں۔عین جوانی کے عالم میں زندگی ان پر بوجھ ہوتی ہے۔ مزاج مزاج کی بات ہے اور حالات و واقعات کا قصہ ہے۔میر تقی میر نے کہا ”اب جان جسمِ خاک سے تنگ آگئی بہت۔کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے“۔جب کوئی ان مٹ غم آن گھیرتا ہے ”چین اک پل نہیں۔او رکوئی حل نہیں“۔ پھر اس چراغ میں تیل کے ہوتے سوتے یہ عین رات کے شروع ہوتے بجھ جایا کرتا ہے۔مگر جس کی جتنی لمبی لکھی ہوتی ہے اس نے دیئے نے اتنا ہی جلنا ہوتا ہے۔مطلب یہ نہیں کہ موجودہ زندگی کو ناشکری کرکے واپس کیا جائے۔کھلونے میں جتنی چابی بھری ہے اتنا ہی چلے گا بلکہ دوڑے گا۔ایک تو عام سی بیماریا ں ہیں۔ جن کو ساتھ لے کر چلناپڑتاہے۔ جیسے ٹفن میں کھانا لے کر کام کاج کو گھر سے نکلتے ہیں اسی طرح ہر بندہ خود کسی نہ کسی بیماری کا کیریئر بنا ہواہے۔شوگر بلڈ پریشر اور معدہ کی بیماریاں تو عام شام سی ہیں۔مگر اس کے علاوہ بھی درجنوں امراض ہیں۔ جو انسان کو لاحق ہوتے ہیں۔بندہ چاہے کہ ان سے نجات حاصل کرے تو اس کو اپنی زندگی سے ہاتھ پیچھے کھینچنا ہوگا۔ورنہ زندہ رہنا تو اب کسی نہ کسی بیماری کے ساتھ مشروط ہوچکا ہے۔کسی کو مہلک مرض نہ ہو۔ بعض کا توعلاج بھی نہیں ہوتا اور لاکھوں کے اخراجات اٹھ جاتے ہیں۔ مریض صحت یاب بھی نہیں ہوپاتا۔بس یہ ہے کہ شکر سے جینا ہے اور دعا قرینہ ہے۔اسی صبرمیں عافیت ہے اور تسلی ہے۔