اومیکرون: خطرے کی گھنٹی

توجہ طلب ہے کہ دنیا بھر میں کورونا وائرس کی نئی قسم جسے ’اُومیکرون (Omicron)‘ کا نام دیا گیا ہے نہایت ہی تیزی سے پھیل رہا ہے اور وبا پھیلنے کا یہ عمل اِس وجہ سے نہیں کہ لوگ سماجی فاصلہ یا وبا کے بارے میں طبی ماہرین کی بتائی ہوئی احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد نہیں کر رہے بلکہ اُمیکرون پھیلنے کی بنیادی وجہ اِس نئے جرثومے کے تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت ہے یعنی یہ کورونا وبا کے مقابلے زیادہ تیزی سے اپنی افزائش اور صحت مند افراد کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔  اومیکرون دنیا کیلئے زیادہ بڑا خطرہ ہے لیکن اِس خطرے کا پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک خاطرخواہ سنجیدگی سے احساس نہیں کر رہے جبکہ ترقی یافتہ دنیا میں فرانس اور امریکہ جیسے ممالک جہاں وبا کے بارے میں عوامی شعور اور عوام کی جانب سے اختیار کی جانے والی احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے وہاں اُومیکرون وبا کے آغاز کے بعد سے یومیہ سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں جنہیں دیکھتے ہوئے عالمی ادارہئ صحت خبردار کر رہا ہے کہ نئے سال کے آغاز پر‘ جبکہ خوشی و مسرت کے اظہار کی تقاریب میں شرکت کی جاتی ہے تو پہلے سے زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کیا جائے اور ایسی تقاریب سے الگ رہنے ہی میں بھلائی ہے۔ اِس نصیحت کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھتے ہوئے بہت سے ممالک نے نئے سال کے آغاز پر کورونا وبا کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لئے نئی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن پاکستان میں ایسا کچھ بھی سننے یا دیکھنے میں نہیں آ رہا اور ملک کے کئی بڑے شہروں میں نئے سال کی تقاریب کے اعلانات یا تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اُومیکرون کے حوالے سے اگر پاکستان کی بات کی جائے تو وفاقی سطح پر مرتب کردہ اعدادوشمار اور محکمہئ صحت کے حکام نے خبردار کیا ہے کہ اب تک ملک میں اُومیکرون کے کل (کم سے کم) 75کیسز کی تشخیص ہو چکی ہے جن میں سے 33 کیسز کا تعلق کراچی‘ سترہ کا تعلق اسلام آباد اور اومیکرون وائرس کا شکار 13 افراد کی تشخیص آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں ہوئی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ لاہور میں تشخیص ہونے والا اُومیکرون کا ایک کیس ایسا بھی سامنے آیا ہے جس میں 23 سالہ شخص نہ تو بیرون گیا اور نہ ہی بیرون ملک سے آیا۔ اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ بیرون ملک سے آنے والا اُومیکرون جرثومہ بنا پکڑ میں آئے پھیل رہا ہے اور چونکہ زیادہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت والا اُومیکرون پاکستان پہنچ چکا ہے تو اِس کا دیگر شہروں تک پھیلنا زیادہ دنوں کی بات نہیں! اگر کسی بھی دن کورونا وبا کے پھیلاؤ کی مجموعی بات کریں تو اُنتیس دسمبر کے روز دن کے اختتام تک (چوبیس گھنٹوں میں) پاکستان میں کورونا وائرس کے 348کیسیز رپورٹ ہوئے جبکہ اسی دورانیے میں چھ اموات بھی ہوئیں۔ پاکستان کے قومی ادارہ برائے صحت (این آئی ایچ) کی جانب سے گذشتہ روز ایک پیغام میں عوام سے پہلی ویکسینیشن جلد از جلد مکمل کرنے اور ویکیسن کی بوسٹر ڈوز (خوراک) لگوانے کی اپیل کی گئی جبکہ امریکہ میں بیماریوں کی روک تھام کے مرکز (سی ڈی سی) نے بتایا کہ امریکہ میں ہر روز چار لاکھ سے زائد افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہو رہی ہے تاہم حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار اس لئے بھی زیادہ ہو سکتے ہیں کیونکہ کرسمس کی وجہ سے کچھ دن رپورٹنگ نہیں ہوئی۔ اِسی طرح فرانس میں یورپ کے بعد اب تک سب سے زیادہ یومیہ کورونا متاثرین رپورٹ ہوئے ہیں۔ جہاں ہر روز لگ بھگ ایک لاکھ افراد میں کورونا مریضوں کی تشخیص ہو رہی ہے۔ فرانس کے صحت کے وزیر اولیویئر ویئران نے اس سے قبل متنبہ کیا تھا کہ موجودہ صورتحال اس جانب اشارہ کر رہی ہے کہ فرانس میں جنوری کے آغاز سے یومیہ ڈھائی لاکھ کووڈ کیسز سامنے آ سکتے ہیں تاہم امریکہ میں میں سامنے آنے والے اعداد و شمار ’اندازوں سے کہیں زیادہ‘ اس لئے ہیں کیونکہ اس سے قبل کرسمس کے باعث ٹیسٹنگ مراکز کی بندش اور ٹیسٹنگ کے نتائج میں تاخیر آ رہی تھی اور نئے سال کے آغاز سے یہ اعداد وشمار معمول پر آ جائیں گے۔‘ مذکورہ اپ ڈیٹ کے مطابق‘ یورپ میں چھبیس دسمبر سے ایک ہفتہ قبل کورونا کی تمام اقسام سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد ستاون فیصد سے بڑھی ہے جبکہ امریکہ میں یہ تعداد تیس فیصد بڑھی ہے۔ اس حوالے سے کی گئی تحقیق میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ وائرس کی اومیکرون قسم ڈیلٹا سے کم مہلک ہے اور اس سے متاثر ہونے والے افراد کا ہسپتال میں داخل ہونے کا امکان تیس سے ستر فیصد کم ہے تاہم اس حوالے سے خدشات اب بھی موجود ہیں کہ اس وائرس کے انتہائی متعدی ہونے کے باعث ہسپتالوں پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ فرانسیسی وزیرِ اعظم جین کیسٹیکس نے رواں ہفتے کے آغاز میں نئی پابندیاں عائد کر دی تھیں جن میں جنوری کے آغاز سے ہفتے میں تین روز گھر سے کام کرنا لازم قرار دیا گیا ہے پرتگال میں سترہ ہزار سے زیادہ جبکہ یونان میں لگ بھگ بائیس ہزار کورونا کیسز رپورٹ ہوئے۔ برطانیہ میں یومیہ ایک لاکھ سے زائد کورونا کیسیز کے باعث نئے سال کے جشن کے حوالے سے تقریبات منسوخ ہیں تاہم کچھ ممالک اب بھی پابندیاں عائد کرنے کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ فرانس اور برطانیہ کی جانب سے عوام کو خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی عقل کے مطابق فیصلے کریں۔ بہت سے یورپی ممالک میں چاردیواری کے اندر اجتماعات کی اجازت دی گئی ہے لیکن یہ طرزعمل کسی بھی صورت دانشمندانہ نہیں کیونکہ ایک ایسی صورت میں جبکہ کورونا وبا ختم نہیں ہوئی‘ خطرہ ابھی ٹلا نہیں تو کس طرح اجتماعات کی اجازت دی جا سکتی ہے جبکہ وہ محدود پیمانے ہی پر کیوں نہ ہوں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کورونا وبا کسی بھی شکل میں ہو لیکن اِس سے بچنے میں احتیاط سے متعلق فیصلہ سازی کا اختیار اگر کسی کو دے دیا جائے گا تو اِس سے خاطر خواہ بہتر نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر اظہر شاہد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)