سال 2021ء کے دوران ’سائنسدانوں‘ نے مختلف کارہائے نمایاں سرانجام دیئے لیکن اِن میں سب سے اہم کائنات کی کھوج کیلئے رواں دواں جیمز ویب دوربین ہے۔ سال کے آخر ہفتے یعنی پچیس دسمبر کو امریکہ کے خلائی ادارے ’ناسا (NASA)‘ نے دس ارب ڈالر کی مالیت کی دنیا کی سب سے بڑی دوربین خلا میں بھیجی۔ انسانی تاریخ میں کبھی بھی اِس قدر بڑی سرمایہ کاری صرف دوربین میں نہیں کی گئی۔ خاص بات یہ ہے کہ مذکورہ دوربین نہ صرف ہبل نامی خلائی دوربین سے حجم میں بڑی ہے بلکہ یہ ہبل کی طرح زمین کے گرد نہیں بلکہ یوں کہیں کہ زمین اور سورج کے مداری نظام کے گرد چکر لگائے گی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سائنسدان اس دوربین کو خلا میں اُس مقام پر تنہا کیوں بھیجنا چاہتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دوربین ہبل دوربین کی طرح عام روشنی میں مشاہدہ نہیں کرے گی بلکہ انفراریڈ روشنی میں مشاہدات کرے گی اور اسی وجہ سے اسے زمین سے دور رکھا گیا ہے کیونکہ زمین اور اس پر موجود جاندار گرمی خارج کرتے ہیں جس کی وجہ سے انفراریڈ روشنی میں ہونے والے مشاہدات میں خلل آسکتا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ہبل نامی دوربین زمین کے گرد چکر لگاتی ہے جس کی وجہ سے کبھی دن اور کبھی رات میں سفر کرتی ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ نئی دوربین کسی بھی کہکشاں یا ستارے کا مشاہدہ لگاتار چوبیس گھنٹے (بنا دن رات کی گردش) کر سکے گی۔ اسی وجہ سے جیمز ویب کو زمین سے دور رکھا گیا ہے تاکہ بنا کسی مداخلت کے سائنسی مشاہدات کئے جاسکیں۔ یہاں ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ مذکورہ دوربین انفراریڈ میں ہی کیوں دیکھے گی‘ عام روشنی میں کیوں نہیں؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کائنات میں ہر جگہ کائناتی مٹی (گردوغبار) موجود ہے جو عام روشنی کو جذب کرتا ہے اور یوں بہت سی چیزیں وجود رکھنے کے باوجود بھی دکھائی نہیں دیتیں یعنی اُن کی روشنی ہم تک نہیں پہنچتی اور مذکورہ گردوغبار اُن اجسام سے ٹکرا کر آنے والی روشنی کو روک لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایک خاص حد سے زیادہ کائنات میں گہرائی سے نہیں دیکھا جا سکتا یا ایسا کرنا دوربین کے ذریعے ممکن نہیں لیکن سائنسی مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ عام روشنی کے برعکس مذکورہ کائناتی مٹی (گردوغبار) انفراریڈ روشنی کو نہیں روکتی جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انفراریڈ کو دیکھنے کی صلاحیت کو استعمال کیا جائے تو کائناتی مٹی کے بادلوں سے آگے کی کائنات میں بھی جھانکنا ممکن ہو سکتا ہے۔ جیمز ویب نامی دوربین جس مقام پر بھیجی جارہی ہے اسے ’لگرانجین پائنٹ ٹو‘ کہا جاتا ہے۔ طبیعات میں لگرانجین پائنٹس کسی بھی مداری نظام میں موجود وہ مقامات ہوتے ہیں جہاں دونوں اجسام کی کشش ثقل نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ زمین اور سورج کے مداری نظام میں پانچ لگرانجین پائنٹس ہیں جبکہ ”لگرانجین پائنٹ ٹو“ پر جیمز ویب دوربین کو ہلانے کی ضرورت نہیں ہوگی اور یوں یہ دوربین کسی بھی کائناتی جسم کا بغور جائزہ لے سکے گا اُور انسان اِس قابل ہوجائے گا کہ وہ دنیا میں بہت دور سے بھی زیادہ دور تک نظریں جما کر نہ صرف مشاہدہ بلکہ کرہئ ارض کی طرح کی دیگر زندگیوں کو تلاش بھی کر سکے۔سال دوہزاراکیس سائنسی نکتہئ نظر سے اِس لئے بھی اہم رہا کہ اِس دوران ”انتہائی کم عرصے میں“ کورونا وبا سے بچاؤ کی ویکسین تیار کی گئی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا جہاں سائنس کے میدان میں ترقی کرتے ہوئے خلاؤں میں پہنچ گئی ہے اور انسانی ذہانت انتہائی خطرناک بیماریوں کا علاج بھی ہفتوں اور مہینوں میں تلاش کرنے کے قابل ہو چکی ہے وہیں پاکستان کا نام و نشان سائنس کی دنیا میں کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا جبکہ ہمارے ہاں ذہانت کی قطعی کوئی کمی نہیں اور پاکستان ہی سے بیرون ملک اعلیٰ تعلیم یا تحقیق کے لئے جانے والے وہاں کی سائنسی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ بہرحال پاکستان کے فیصلہ ساز اور عوام اپنے آپ کو یہ کہتے ہوئے تسلی دے سکتے ہیں کہ سائنس اور سائنسی دریافتیں کسی ایک ملک کی جاگیر نہیں ہوتیں بلکہ تمام انسانیت کے فائدے کے لئے ہوتی ہیں! لیکن بہرحال لمحہئ فکریہ ہے کہ پاکستان میں سائنس اور بالخصوص سائنس کے مختلف شعبوں میں تحقیق کے حوالے سے جس طرح سال دوہزاراکیس خاموشی سے گزر گیا‘ آئندہ سال (دوہزاربائیس) کم سے کم مختلف ہونا چاہئے اور سائنس کی دنیا میں کہیں نہ کہیں‘ کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کا نام بھی چمکنا چاہئے۔