یہ رنگ روڈ پر چارسدہ اڈہ سے پہلے ایک کالونی ہے۔جو لوگ باہر سڑک کی بھیڑ سے بچنا چاہتے ہیں یہ ان کیلئے شارٹ کٹ ہے۔ پھر اس راہ کو گذر گاہ بنانا باہر رش میں الجھنے سے اچھاہے۔ یہ راستہ کبھی سہولت کی راہ گذر تھا۔ مگراب گاہے یہاں بھی وہ ہجوم ہوتا ہے کہ بندہ کہتا ہے کہ مجھے تو باہر کی مین شاہراہوں پر سے گذرنا یہاں کی بہ نسبت زیادہ فائدہ دیتا۔یہاں ایک نہر بھی ہے۔جسے گندا وینڑ کہتے ہیں۔بھرا پُرا بازار ہے۔یہاں اکثر خواتین کی کثرت ہوتی ہے۔مگر یہاں چوک پر اکثر تو نہیں مگر کبھی ٹریفک الجھ جاتی ہے۔یہ راستہ مختلف اطراف کی طرف نکلتا ہے۔ جو لوگ شہر کے رہائشی ہیں ان کو تو اس راہ کے بارے میں خوب معلوم ہے۔مگر جن کو پتا نہیں وہ باہر اڈہ کے پاس انبوہ میں پھنسے رہتے ہیں۔کالج جانے کیلئے میں نے بھی یہی راہ اختیار کر رکھی تھی۔مگر جب یہاں ٹریفک کی بہتات ہو جائے تو دل کرتا ہے خود کو دو ہتھڑوں سے خوب پیٹیں کہ اس طرف آئے کیوں۔ دراصل باہر ورسک روڈپُل کے نیچے جب ہنگامہ خیز بھیڑ بن جاتی ہے تو بھیڑ چال کی طرح ایک کے پیچھے دوسرا گاڑی والا اسی کالونی کی راہ پر ہو لیتا ہے۔ اس لئے یہا ں اچانک رش کا ہو جانا عین ممکنات میں سے ہے۔اندر چوک میں جب گاڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ پھنس گئیں توبارے ہم نے بھی پشیمانی میں سر جھٹکا کہ ”یہ کہاں آ گئے ہم یونہی ساتھ ساتھ چلتے“۔مگر اس ساکت و جامد بھیڑ بھاڑ میں کھڑے رہ جانے اور ٹریفک کے سلجھنے کا انتظار کرنے کے سوا جب کوئی چارہ نہ رہا تو ہم نے وہیں کھڑے رہ کر گاڑیوں والوں کے آپس میں بحث و تکرار کے مناظر کو سیربینی جانا۔ کیونکہ وہاں تو ہر قسم کی گاڑی گھسی ہوئی تھی۔ موٹر گاڑی سے لے کر آٹورکشہ اور چنگ چی پھر بائیک والوں کی کثرت کے مناظر بھی دیدنی تھے۔مجھے وہ منظر بہت بھلا لگاجب گدھا گاڑی والے کو راستہ نہیں مل رہا تھا۔وہ آگے جانے کے قابل نہ تھا او رنہ ہی پیچھے جانے کی راہِ فرار حاصل تھی۔ اس کے پیچھے ایک رکشے والا اس کی گدھا گاڑی سے بالکل نتھی ہوا تھا۔مشینی گاڑی اور جانوروالی گاڑی ہو یا تانگہ ان میں بہت فرق ہے۔ گاڑی پر کنٹرول کرناتو ڈرائیور کے بائیں ہاتھ کا کام ہو تاہے۔مگر گدھا گاڑی اور گھوڑا گاڑی کو دائیں بائیں دونوں ہاتھوں سے قابو میں رکھنا دشوار ہے۔سمجھ بوجھ رکھنے والے ڈرائیور حضرات اپنی کار وغیرہ کو گدھا گاڑی سے دور رکھتے ہیں۔مگر وہ رکشہ والا گدھا گاڑی کے پیچھے ایسے جفت ہوکر کھڑا تھا جیسے رکشہ تو گدھا گاڑی ہی کا حصہ لگتا تھا۔گدھا گاڑی کے کوچوان نے غصے سے رکشہ والے سے کہا ذرا پیچھے ہٹو پھر نہ کہنا اور فاصلہ چھوڑو۔یہ گدھا ہے کسی بھی وقت بھی الٹی پلٹی حرکت کر سکتا ہے۔ہمارے ہاں بازارو ں میں گاڑیوں کے جلوس میں تانگے بھی گھسے ہوں تو حد درجہ احتیاط کرنا چاہئے کیونکہ جانور ہے۔گھوڑا تو بڑے زورمیں ہوتا ہے۔اچانکل بدک جائے تواسے کون قابو میں کر سکتا ہے۔اسی لئے تو گدھوں اور گھوڑوں کی آنکھوں پر چمڑے کی ادھ کھلی عینک پہنی ہوتی ہے۔تاکہ اس کو ایک محدود انداز میں آگے ہی نظر آئے۔یہ نہ تو دائیں بائیں دیکھ سے اور نہ اس کی نگاہ پیچھے کی جانب ہو۔کیونکہ بچوں والا ایک پٹاخہ چھوٹنے سے گھوڑا گھبرا کر دونوں پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔گھوڑا اپنے زور پر پیچھے اور آگے ہو سکتا ہے۔اس وقت اس کا بانس کسی نئی نویلی گاڑی میں گھس جائے تو تانگے کے مالک کو دوش نہیں دیا جاسکتا۔ وہ یہی کہے گا صاحب کیا کروں جانور ہے۔مگر کہنا چاہئے کہ پیارے بھائی اگر وہ جانور ہے تو کیاہوا تم تو انسان ہو۔اس کو یہاں لے کر ہی کیوں آئے تھے۔ہمارے بازاروں یہی کچھ تماشا لگا رہتا ہے۔سارا دن یہی کشمکش جاری رہتی ہے۔جن بیچاروں کو بینکوں نے موٹر کاریں آسان اقساط میں دے رکھی ہیں وہ تو بیچارے ہی کہلائیں گے۔کیونکہ نئی چمچماتی کار تو حاصل کرلی مگر شہر کے راستے جو ان کی کار کے شایانِ شان نہیں ہیں۔پان سات کاموں کی لسٹ بنا کر نکلے گا مگر رش کے کارن ایک ہی کام کرکے گھر کو عین وقت پر واپس آگیا تو آگیا۔مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس شہرِ دلبر میں کون سی جگہ ایسی ہے کہ جہاں ٹریفک کارش نہیں ہوتا۔ اس سوال کا جواب دینا بہت آسان ہے۔وہ یہ ہے کہ یہا ں کوئی سڑک کوئی گلی رش سے خالی نہیں ہے۔بلکہ چوڑی سی گلی ہو تو وہاں ٹرکوں کی آمد و رفت بھی جاری رہتی ہے۔کوئی کونہ کوئی قریہ ٹریفک کے الجھاؤ میں سلجھتا نہیں۔جگہ جگہ مال لوڈ ان لوڈ ہو رہاہے۔ گاڑی تو کیا خود شہریوں کے پیدل جانے کے راستے بھی بندش کا شکار ہو چلے ہیں۔مگر شہر میں جو مقیم ہیں وہ اس شہر کے ہنگاموں سے دور جانا چاہتے ہیں۔ مگر جو شہر سے باہر دوسرے شہرو ں میں یا دوسرے ملکوں میں رہائش رکھتے ہیں ان کو یہی رش یہ بھیڑ بھاڑکا عالم یہ سوئی گرانے کی جگہ کا نہ ملنا یاد آتا ہے اوروہ جان بوجھ کراس ہنگامہ خیز ہجوم میں گم ہونا چاہتے ہیں۔شہر آئیں گے تو ہشت نگری سے انٹر ہوں گے اور کریم پورہ شاہین بازار چوک شادی پیر سے ہوکر مینا بازار تک پہنچ جائیں گے پھر وہاں سے کوچی بازار سبزی منڈی پیپل منڈی چوک ناصر خان پھر چاہ شہباز کوہاٹی اور اندرون کوہاٹی سے ہوکر سرکی سے گذریں گے اور ٹھنڈی کھوئی سے ہو کر رامداس بازار نکل جائیں گے۔