تاریخ نے ایک مرتبہ نہیں، کئی بار ثابت کیا ہے کہ چین ہی دنیا میں ہمارا واحد دوست ہے اسی چین کے ڈر اور خوف سے بھارت ہمارے ساتھ زیادہ چھیڑ چھاڑ نہیں کرتا اس چین کے ساتھ ہمارا حد درجے لگاؤ امریکہ کی آنکھوں میں کھٹکھتا ہے یہ درست ہے کہ ہم نے بھی چین کو گرم پانیوں تک رسائی دی ہے کہ جس سے معاشی طورپر اس کے وارے نیارے ہو جائیں گے پر دوستانے یارانے میں اور وہ بھی اس ملک کے یارانے میں کہ جو مشکل حالات میں ہمارے کام آتا ہے اس قسم کے کام کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہمسایوں کے ساتھ ویسے بھی تعلقات خوشگوار رکھنے ضروری ہوتے ہیں امریکہ کے ساتھ قربت ہمیں راس نہیں آئی اس نے ہمیشہ پاکستان کو گنڈیری سمجھا اسے دباکر چوسا اور پھر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا، دنیا جانتی ہے کہ 1950 کی دہائی میں اس کیلئے اس کی کمیونزم کے خلاف سرد جنگ میں ہم نے فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کیا پر جب 1971 کی پاک بھارت جنگ میں ہمیں اس کی مدد درکار تھی اور اگر وہ مدد کردیتا تو مشرقی پاکستان کوبھارت اور سوویت یونین آپس میں مل کر کبھی نہ کاٹ سکتے اس نے طوطاچشمی کا مظاہرہ کیاہم سنتے رہے کہ ہماری مدد کو امریکہ کا ساتواں بحری بیڑہ پہنچ رہا ہے اس نے نہ آنا تھا اور نہ وہ آیا سانپ کے ڈسے کو رسی سے ڈر لگنا چاہیے پر ہماری عاقبت نااندیش قیادت کو نہ1980 کی دہائی میں ڈر لگا اور نہ 2001ء میں نائن الیون کے سانحہ کے بعد ہم دوبارہ بلکہ سہ بارہ امریکہ کے جھانسے میں آئے اور اس کے مفاد کی خاطر ہم نے پاکستان کی سالمیت اور بقا کو داؤ پر لگا دیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ پاکستان کو چین سے سیکھنا چاہئے کہ اس نے چند ہی برسوں میں کئی کروڑ چینیوں کو غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والی زندگی سے کیسے نکالا اس کی معاشی خوشحالی اورسائنسی ترقی کا آخر راز کیا ہے دنیا کی تاریخ میں تو ماضی قریب سے لیکر آج تک کوئی حکمران اپنے ملک سے غربت کو اس تیز رفتاری سے ختم نہ کرسکا کہ جو چینی قیادت نے کردکھایا ہے کرپشن اور کرپٹ لوگوں کا جس سختی سے چینی قیادت نے چین سے خاتمہ کیا ہے وہی سختی اگر ہم پاکستان میں کرنا شروع کر دیں تو یار لوگوں کی چیخیں نکل جائیں، یہاں بھی کرپشن کے خلاف اگر سخت پالیسی اپنائی جائے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔یہاں پر کرپشن کرنے والے پلی بارگین اور اس طرح کی سہولت سے فائدہ اٹھا کر کچھ رقم واپس قومی خزانے میں واپس جمع کردیتے ہیں تاہم اس سے کرپشن کی وہ حوصلہ شکنی نہیں ہورہی جس کی ضرورت ہے۔ چین میں تو اس قسم کے لوگوں کو فائرنگ سکواڈ کے آگے کھڑا کر گولی مار دی جاتی ہے جزا اور سزا کے بغیر تو معاشرے میں کبھی بھی سدھار نہیں آتا چینی قیادت کی سیاسی فراست اور عقل و فہم کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ ایک مرتبہ جب ماوزئے تنگ اور چو۔این۔لائی جیسے حکمرانوں نے وہاں اپنے قدم اچھی طرح جمالئے کہ جس کیلئے انہیں کافی محنت کرنا پڑی تو پھر ان کے جانشینوں نے سوشلزم اور کیپٹلزم دونوں نظاموں میں جو چیزیں انہیں بہتر لگیں ان کے امتزاج سے چین میں ایک ایسا معاشی نظام نافذ کیا کہ جو چین کے مخصوص حالات سے میل رکھتا تھا اور اس حسین امتزاج کی وجہ سے وہ چین کو ترقی کے بلند ترین مقام پرلے گئے اور ہنوز ترقی کا یہ سفر جاری ساری ہے۔