یہاں خیر خیرات دینے والے جتنے ہاتھ ہوں کم ہیں۔ چپکے سے دیں یا اعلان کر کے ہی دیں غنیمت ہے،جس جگہ سودا سلف لینے کو کھڑے ہوں ایک دم کوئی مفلس و نادار مرد عورت بچہ بچی سامنے آ جائیں گے۔یہ ہمارے خود کا آئینہ ہیں۔روز بروزمفلسی زیادہ ہو رہی ہے۔ پھر جو غریبی کا شکار ہیں ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہاہے۔سوچتا ہوں ہمارا کیا بنے گا۔ ہم کس راہ پر جا رہے ہیں۔ یہ راستہ کہاں جا کر ختم ہوتا ہے۔ کہیں ہمارا ترقی کا سفر بند گلی کی مسافت نہ ہو۔جہاں آگے کوئی راستہ نہیں ہوتا۔بس بے حس و حرکت کھڑے ہونا پڑتا ہے۔یہاں جتنے خیر خیرات والے محکمے ہوں اتنے ہی کم ہیں۔ عرصہ ئ دراز سے اس قسم کے محکمے اور لوگ اس غربت زدہ معاشرے کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں۔مگر ہماری بے کسی ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہی۔ ہر نئے دن کے ساتھ ہم ایک شخص اور پوری قوم دوسروں کی قرض دار ہوئی جاتی ہے۔ہر بچہ جو روزانہ پیدا ہوتا ہے لاکھوں روپوں کا قرض دار ہے۔ قرض کی قسط کی ادائیگی میں نیا قرضہ لیتے ہیں۔قوم کو پورے طور پر زنجیروں میں باندھ رکھا ہے۔ ہمارے پاس بیچنے کے لئے مال ہی نہیں۔ہم بیچیں تو آخر کیا بیچیں۔ کوئی ملک اسلحہ بیچ کر کما رہاہے او ردوسرے ملکوں کو قرض بھی دیتا ہے اور ساتھ امداد بھی فراہم کرتا ہے۔ کوئی ملک تیل کی فروخت میں جُتا ہوا ہے او رمال کما کر اپنے کھیسے بھر رہا ہے۔مگر ہم نے کیا بیچنا ہے۔باہر ملکوں میں نہ توبجلی کی کمی ہے او رنہ گیس کم ہے۔ پھر یہ تھپیڑے قسمت کی طرف سے نہیں۔ جو کیا ہے ہم نے خودکیا ہے۔شہر میں گھوم پھر کر دیکھیں۔ اگر سینے میں درد مند دل دھڑک رہا ہے تو آپ کو سوائے افسوس اور المیہ کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔صبح سے گئی بجلی جاکر شام کو لوٹتی ہے۔دکاندار ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں۔جنریٹر بھی چلائیں تو کتنا چلائیں گے کیونکہ جنریٹر یا تو پٹرول سے چلتا ہے یا گیس سے چلایا جاتا ہے۔دونوں چیزیں نایاب او رکمیاب ہو رہی ہیں۔جو عالمی ادارہ ہمیں قرضہ دیتا ہے وہ اپنی شرائط بھی ہم پر تلوار کی طرح رکھ دیتا ہے۔وہ کباب فروش ہے۔ اس کی دکان کے ساتھ نہر ہے۔ نہر کی چھوٹی دیوار پر صبح سویرے مزدور آکر بیٹھ جاتے ہیں۔کوئی رنگساز ہے کوئی رسی والا مزدور کوئی ہتھوڑی او ر رندا لئے بیٹھا ہے۔پھر کوئی ہاتھ میں کرنڈی تھامے ہے۔ہر کسی نے اپنے اوزار اپنے سامنے زمین پر بچھا رکھے ہیں تاکہ کوئی آئے اور ان کو مزدوری کے لئے اپنے تعمیراتی کام کے مقام پر لے جائے۔کچھ کو تو ایک دن یا دوچار دنوں کے لئے کرایہ پر لے جاتا ہے۔مگر باقی جو نادار بیٹھے ہوتے ہیں یوں لگتا ہے کہ بیمار بیٹھے ہوتے ہیں۔کباب والے کی زندگی دراز ہو دن گیارہ بجے جب دیکھتا ہے کہ ان کو کوئی اپنے ساتھ کام کاج کے لئے نہیں لے گیا۔ اس وقت یہ ایماندار ان کو ہاتھ پر ایک روٹی ایک ٹکی رکھ کر کھانا دیتا ہے۔مگر ان مزدوروں کے گھرمیں جو گھونسلہ ہے ان کے لئے کون بندوبست کرے گا۔کباب والے کودوسرے خیر خیرات والے لوگ بھی کھانے کی تقسیم کو آکر رقم دے جاتے ہیں۔کوئی بھوکا نہ سوئے اور دارالکفالہ پھر دارالامان او راس قسم کے دسیوں محکموں کے ناموں کی گردان آئے روز سرکاری بندوں کی وجہ سے کان میں پڑتی ہے۔حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں کئی محکمے کام کر رہے ہیں جس سے لوگوں کو بہت فائدہ ہو رہا ہے،ماناکہ لوگ اورمحکمے پہلے سے کام کر رہے ہیں۔مگران کی تعداد میں اضافہ ہو۔