اشرف غنی اور اس کے مغربی اتحادی

افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے بی بی سی ریڈیو 4 کے پروگرام ٹو ڈے سے انٹرویو میں کابل سے اپنے فرار کا دفاع کرتے ہوئے مغربی ممالک پر تنقید کی ایک امن عمل کی بجائے ہمیں انخلا ء کا عمل ملا۔‘ جس طرح سے فروری 2020 ء کا امریکہ طالبان معاہدہ کیا گیا اس نے ہمیں ’مٹا دیا۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ اس دوران مجھ سے غلطیاں بھی ہوئی تھیں جیسے یہ کہ یقین کہ بین الاقوامی کمیونٹی کے صبر کا پیمانہ لبریز نہیں ہو گا یابین الاقوامی شراکت داروں پر اعتبار کرنا۔ مگر میرا زندگی بھر کا کیا گیا کام تباہ ہو چکا ہے۔ میرے اقدار روند دیئے گئے ہیں اور مجھے قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔اشرف غنی نے یہ بھی کہا کہ طالبان جنگجوؤں نے کابل میں داخل نہ ہونے پر آمادگی ظاہر کی تھی، ’لیکن دو گھنٹے بعد صورتحال ایسی نہیں رہی تھی۔ ایسے میں وزرات دفاع جانا چاہتا تھا مگر گاڑی نہیں پہنچ سکی اور اس کے برعکس ’گھبرائے ہوئے‘ صدارتی سکیورٹی پر معمور چیف میرے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ یہاں رکنے کے فیصلے پر مصر رہتے ہیں تو ’ہم سب مارے جائیں گے۔تو کیا واقعی ایسا ہوا ہے؟ کیا واقعی اشرف غنی کو بیچ منجدھار چھوڑا گیا تھا۔جب امریکی صدر جوبائیدن نے گیارہ ستمبر 2021 ء تک افغانستان سے تمام فوجی دستوں کی مرحلہ وار واپسی کا اعلان کردیا تو اشرف غنی نے اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔ان کے بقول ”افغانستان سے پہلے بھی انخلاء ہوتے رہے ہیں۔ 2014 میں میری صدارت کے آغاز پر بھی ایک لاکھ تیس ہزار امریکی اور نیٹو افواج کا انخلاء ہوا۔اشرف غنی کو معلوم تھا افغان فوج طالبان کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔ طالبان کو عوام کی حمایت حاصل تھی جبکہ افغان فوج کو نہیں۔ طالبان امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے اس لئے بہت سارے افغانی ان کے ساتھ مل گئے۔ کسی بین الافغان معاہدے سے قبل اپنی فوج نکال کر امریکہ نے کابل میں خانہ جنگی پیدا ہونے کے امکانات میں اضافہ کردیا تھا مگر وہ تو بھلا ہو طالبان کا کہ انہوں نے سب کیلئے معافی کا اعلان کرکے یہ امکانات کم کردیئے۔ مگر فروری 2020 ء کے امریکہ طالبان معاہدے کے پیش نظر ایسا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ افغانستان سے واپسی کے فیصلے کو نیٹو نے بھی فوری اور متفقہ طور پر قبول کیا۔ 20 سال میں امریکہ کا بڑا جانی و مالی نقصان ہوا۔امریکہ نے جو کیا وہ موقع و محل کی مناسبت سے درست ممکنہ اقدام تھا۔ امریکہ کو توقع نہیں تھی کہ ان کی حمایت یافتہ اور تربیت یافتہ فوج  کابل میں امریکی افواج کی موجودگی کے دوران ہی ڈھیر ہو جائیں گی۔ اگر امریکہ افغانستان میں مزید فوج بھیجتا اور قیام بڑھاتا تو حملوں کے خطرات بڑھ جاتے۔اشرف غنی نے بی بی سی کے ساتھ انٹرویو میں طالبان کے مخالف دھڑوں کے درمیان کابل پر قبضے کیلئے جو کہانی گھڑی ہے وہ درست نہیں ہے۔ امریکی اخبارات میں پندرہ اگست کی صبح اشرف غنی کے فرار کی جو کہانیاں سامنے آئی تھیں ان کا راقم نے باریک بینی سے مطالعہ کیا تھا۔ اس کے مطابق واقعات کا صحیح سلسلہ یوں ہے کہ اشرف غنی کو ان کے قریبی ساتھیوں نے بتایا کہ انہیں جلدی باہر نکلنا چاہئے۔ اب وہ بے شک بلند و بانگ دعوے کرتے رہیں مگر ان کی ساکھ کو بڑا نقصان پہنچ چکا ہے۔ امریکہ اور افغانستان دونوں انخلاء سے قبل کے ہفتوں میں چیزوں کو ہلکا لے رہے تھے۔ طالبان علاقے فتح کررہے تھے مگر امریکہ اور افغان حکومتیں مطمئن تھیں کہ باغیوں کے قبضے میں ابھی بہت سا وقت باقی ہے۔ اشرف غنی اپنے مددگاروں کو بتاتے کہ امریکہ کی روانگی کے بعد افغان افواج طالبان کو روک سکیں گی اور انہیں بس حالات کو بدلنے کیلئے چھ مہینے درکار ہیں۔ طالبان کے حملے دیہات اور صوبائی دارالحکومتوں پر شدید ہوگئے تو بھی ان کا اعتماد غیر متزلزل رہا۔ طالبان کی فتوحات جاری رہیں تو امریکی اہلکار کو اشرف غنی کے اعتماد کو سراب سمجھنے لگے۔ جولائی میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینیتھ فرینک میکنزی اور سفیر راس ولسن نے اشرف غنی کو تمام چونتیس صوبوں کا بیک وقت دفاع چھوڑکر صرف ممکن اور کابل کے دفاع کے لئے ضروری صوبوں کو بچانے کا مشورہ دیا۔ لیکن مشورے پر عمل درآمد ندارد اور اشرف غنی لاپروا تھے۔صدر اشرف غنی کسی کو بھی بتائے بغیر بھاگ چکے تھے۔ اشرف غنی کے مددگار جو سریع انخلاء کا حصہ نہیں تھے دوپہر کے کھانے سے واپس آئے تو انہوں نے صدر کو غائب اور ان کا دفتر خالی پایا۔ افغان فوج طالبان کی مزاحمت کئے بغیر غائب ہوچکی تھی۔حالات نے جس رفتاری سے پلٹا کھایا اس پر امریکہ، افغانی، اور طالبان بھی ششدر رہ گئے تھے۔  فوراً دوحہ میں امریکی سینئر کمانڈ کے کمانڈر جنرل میک کینزی سمیت سینئر امریکی فوجی رہنماؤں نے طالبان کے سیاسی ونگ کے سربراہ عبدالغنی برادر سے بات کی۔ برادر بولے ہمارے پاس اس سے نمٹنے کے لئے دو راستے ہیں امریکی فوج کابل کو محفوظ بنانے کی ذمہ داری لے لے ورنہ ہم یہ کرلیتے ہیں۔ میکنزی نے برادر سے کہا کہ امریکہ کا مقصد صرف امریکی شہریوں، افغان اتحادیوں اور خطرے سے دوچار دیگر افراد کو نکالنا ہے اور یہ کہ امریکہ کو اس کیلئے کابل ائرپورٹ درکار ہے۔ فوراً ایک مفاہمت ہوگئی کہ امریکہ کے پاس اکتیس اگست تک کابل ائرپورٹ ہوگا جبکہ طالبان شہر کو کنٹرول کریں گے۔