پاکستان میں ”تحفظ ماحول کی کوششیں‘‘سال دوہزاراکیس کا سب سے اہم اقدام ”ری چارج پاکستان پروگرام‘‘رہا جو ماحولیاتی مشکلات سے مثبت راہ نکال رہے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کا شمار آبی قلت والے ممالک میں کیا جاتا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا تقریباً تیس سے پینتیس ایم اے ایف پانی ہر سال ضائع ہوجاتا ہے۔ صرف سو دن سال میں ایسے ہوتے ہیں جب شمالی علاقوں میں گلیشئرز پگھل رہے ہوتے ہیں اور جنوب میں مون سون کی بارشیں ہو رہی ہوتی ہیں تو دونوں جانب سے پانی دریائے سندھ میں آتا ہے۔ لیکن ہمارے پاس پانی کو ذخیرہ کرنے کے انتظامات موجود نہیں لیکن اب ہم نے اس پانی کو قدرتی طریقے سے محفوظ کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ دریائے سندھ کے اطراف چودہ پندرہ آب گاہیں ہیں وہاں یہ پانی جمع کیا جائے گا۔ اس سے زیرِ زمین پانی کی سطح بلند ہوگی۔ اس کا ایک پورا نظام بنایا جائے گا‘ اس شعبے میں بھی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ پاکستان نے ماحولیاتی خدمات کے بدلے قرضوں کی معافی کا جو منصوبہ بنایا ہے اسے عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہے اور اس ضمن میں کئی ممالک سے معاملات طے ہوچکے ہیں۔ ماحولیات کے شعبے میں پاکستان کی کارکردگی کے پیش نظر اس نئی سکیم کو عالمی ممالک ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں جس سے آنے والے وقت میں معیشت میں یقینا مزید بہتری آئے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان نے پانچ جون کو عالمی مارکیٹ میں دس سالہ مدت کے لئے پچاس کروڑ یورو کے گرین بانڈز بھی فروخت کے لئے پیش کئے۔ عالمی سطح پر اس کا بہت مثبت ردِعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ ان گرین بانڈز سے حاصل ہونے والی رقم گرین انرجی یعنی ہائیڈرو پاور کے شعبے میں استعمال کی جائے گی۔ پاکستان نے فی الحال پچاس کروڑ یورو کے بانڈز جاری کئے ہیں مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس کے چار گنا یعنی دو ارب یورو تک کی آفر ہوچکی ہے۔ دنیا اس وقت بدلتے موسموں کے حوالے سے تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ’درجہ حرارت ڈیڑھ ڈگری سنٹی گریڈ سے آگے بڑھنے نہ دیا جائے لیکن یہ مکالمہ تو اب کہیں دور رہ گیا ہے کیونکہ اب تو دنیا دو اعشاریہ سات سینٹی گریڈ گرم ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اُنیسویں صدی کے اختتام پر دنیا کا درجہ حرارت جس قدر گرم تھا اب اس سے کہیں زیادہ ہو چکا ہے اور دنیا کے ہر خطے میں موسمیاتی تغیرات کے نتیجے میں آفات سے تباہی جاری ہے۔ ”کوپ 26“ کا بنیادی ایجنڈا یہ تھا کہ مضر گیسوں کے اخراج کو 2050ء تک ’نیٹ زیرو‘ تک پہنچا دیا جائے لیکن ترقی یافتہ ممالک اس پر متفق نہیں ہوسکے۔ اس کے علاوہ کوپ کے مقاصد میں ترقی پذیر غریب ممالک کے لئے 100ارب ڈالرز کے کلائمیٹ فنڈ کا قیام بھی شامل تھا لیکن اس پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ وقت کی مالا پر سال کی گرہ اس تیزی سے لگ رہی ہے کہ نظر ٹھہر بھی نہیں پارہی‘ ابھی سال شروع ہوا ہی تھا اور اب 2021ء کا اختتام ہوا چاہتا ہے اور زندگی نئی کروٹ لے رہی ہے۔ کورونا وبا کے سائے چھٹ رہے ہیں اور حیات کے رنگ پھر سے نکھر رہے ہیں۔ سال کا آخری مہینہ دسمبر جدائی‘ ہجر اور فراق کی علامت بن کر آتا ہے۔ سوشل میڈیا غمزدہ شاعری سے پٹا پڑتا ہے مگر یہ ماہ ماحول دوستوں کے لئے امید اور آس لئے ایک نئے ڈھب سے طلوع ہوتا ہے۔ ہر نظر اس عالمی سربراہی کانفرنس پر ٹھہر جاتی ہے جہاں دنیا بھر کے لیڈر ماحول کے حوالے سے جائزہ لینے اور فیصلے کرنے کے لئے کسی ایک ملک میں جمع ہوتے ہیں۔ اس تقریب کو کانفرنس آف پارٹیز یا کوپ بھی کہا جاتا ہے۔ ماحول کے حوالے سے اگر سال دوہزاراکیس کا جائزہ لیا جائے تو منظرنامہ خاصا خوش آئند نظر آتا ہے۔ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے باوجود پاکستان اپنے ماحول دوست اقدامات کی بدولت عالمی منظرنامے میں ایک رہنما بن کر ابھرا ہے۔ اس سال ہر بین الاقوامی تقریب یا اجلاس میں پاکستان کے ماحول دوست اقدامات کو سراہا گیا اور اس سال پاکستان کو ماحولیات کے عالمی دن کی میزبانی کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ ہر مکتبہ فکر میں اسے پاکستان کے لئے تاریخ ساز دن سمجھا گیا کہ عالمی یومِ ماحول کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ دنیا بھر میں عالمی یومِ ماحول پانچ جون کو منایا جاتا ہے۔ اس سے پہلے یومِ ماحول کو ”صرف ایک ہی کرہ ارض (اونلی ون ارتھ)‘‘کے عنوان سے منایا گیا۔