ضمنی بجٹ

تیس دسمبر دوہزاراکیس: قومی اسمبلی اجلاس میں ضمنی بجٹ پیش کیا گیا جس میں خوردونوش بشمول شیر خوار بچوں کے دودھ اور دالوں سمیت دیگر اجناس و اشیاء پر 343ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے اور اضافی ٹیکسوں کی تجویز دی گئی ہے تاہم یہ قومی اسمبلی اجلاس سے یہ تجاویز منظور نہیں ہوئیں۔ ذہن نشین رہے کہ حکومت درآمدی اور مقامی گاڑیاں‘ موبائل فون‘ لیب ٹاپ‘ سٹیشنری‘ مرغی و مرغی کے گوشت سے بننے والی مصنوعات‘ دودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات‘ سونا‘ چاندی‘ زیورات‘ بیکری مصنوعات‘ پاور پلانٹ کی مشینری اور آسائش (لگژری) کے طور پر استعمال ہونے والی اشیا سمیت دیگر کئی اشیا پر ٹیکس استثنیٰ ختم یا لگانا اور بڑھانا چاہتی ہے جبکہ سکستھ شیڈول کے تحت درجنوں آئٹمز پر سترہ فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی ضمن میں 272ارب روپے کی مراعات ختم کی گئی ہیں تاہم اس ضمن میں جو ٹیکس ادا ہو گا وہ ایڈجسٹ ایبل ہو گا اور بعدازاں ان کو ادا کرنے والا اپنی ٹیکس کی ذمہ داری کے ضمن میں اس رقم کو کلیم کر سکے گا۔ 144 اشیا ایسی ہیں جن پر ٹیکس کی رعایتی شرح سے پانچ سے بارہ فیصد کے درمیان ہے تاہم اب ان پر جی ایس ٹی کی شرح سترہ فیصد ہو گی۔ قومی اسمبلی میں ضمنی (منی) بجٹ پیش ہونے کے موقع پر حزب اختلاف کی جانب سے ہنگامہ آرائی کی گئی۔ اجلاس کاروائی سے متعلق تفصیلات (ایجنڈے) کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اُچھالی گئیں اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ قبل ازیں چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) نے کابینہ کے سامنے قومی آمدنی کی تفصیلات پیش کیں اور بتایا کہ ”آئی ایم ایف نے سات سو ارب روپے ٹیکس لگانے اور سترہ فیصد جی ایس ٹی کے نفاذ کا مطالبہ کیا تاہم ٹیم ایف بی آر نے اسے 343ارب روپے مالیت کے ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے پر آمادہ کیا۔“۔ وزیر خزانہ نے نئے ٹیکسوں اور جی ایس ٹی کی مختلف اشیا پر چھوٹ ختم کرنے کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے وہ ان کی اپنی حد تک تو ٹھیک ہوگا لیکن عوام مہنگائی اور بے روزگاری میں ہونے والے مسلسل اضافے کی وجہ سے پہلے ہی شدید پریشانی اور مشکلات کا شکار ہیں‘ ایسے میں نئے ٹیکسوں کا نفاذ یا عام استعمال کی اشیا پر جی ایس ٹی کی چھوٹ ختم کرنے سے عوام کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ صورتحال کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لئے فوری طور پر ٹھوس اقدامات کریں۔اکتیس دسمبر دوہزاراکیس: پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کرتے ہوئے پیٹرول اور ڈیزل چار روپے فی لیٹر مہنگا کر دیا گیا۔ خزانہ ڈویژن کے اعلامیے میں پیٹرول اور ڈیزل کے علاؤہ مٹی کے تیل کی قیمت میں تین روپے پچانوے پیسے اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں چار روپے پندرہ پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد پیٹرول کی فی لیٹر قیمت ایک سو چوالیس روپے بیاسی پیسے جبکہ ڈیزل یکم جنوری (دوہزاربائیس) سے ایک سو اکتالیس روپے باسٹھ پیسے فی لیٹر کر دیا گیا ہے۔ مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمتیں بھی اِسی تناسب سے تبدیل ہوئی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ ’آئی ایم ایف‘ سے معاہدے کے تحت کیا گیا تاکہ پیٹرولیم لیوی سے متعلق ہدف حاصل کیا جا سکے۔ اِس سے قبل حکومت نے پندرہ دسمبر کو پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں پانچ روپے فی لیٹر کمی کا اعلان کیا تھا جو یکم ستمبر کے بعد حکومت کی جانب سے پہلی مرتبہ قیمتوں میں کمی تھی۔ دوہزاراکیس میں پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے باوجود ملک میں اس کے استعمال میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا جس میں دیگر پیٹرولیم مصنوعات کے برعکس پیٹرول کی کھپت 83لاکھ پچاس ہزار ٹن تک بڑھ گئی۔ مالی سال دوہزارسترہ سے دوہزاراکیس کے اعدادوشمار کے مطابق دوہزارسترہ میں پیٹرول کی کھپت چھ اعشاریہ چھ ملین تھی جو دوہزاراٹھارہ میں بڑھ کر سات اعشاریہ چار ملین تک پہنچی۔ اسی طرح سال دوہزاراُنیس میں سات اعشاریہ چھ ملین‘ دوہزاربیس میں سات اعشاریہ پینتالیس ملین اور دوہزار اکیس میں یہ کھپت تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی آٹھ اعشاریہ پینتیس ملین تک پہنچ گئی۔ گزشتہ کچھ برس اور خاص کر سردی کے مووسم میں پیٹرول کی کھپت میں سی این جی اسٹیشنز کی بندش اور گیس لوڈشیڈنگ کے باعث اضافہ ہوا ہے جس کا نیتجہ یہ نکلا کہ سی این جی پر چلنے والی گاڑیاں پیٹرول پر منتقل ہوگئیں۔ دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کی خرید و فروخت‘ ناقص ٹرانسپورٹ سسٹم اور سی این جی کی بڑھتی قیمت میں اضافہ بھی پیٹرول کی مانگ میں اضافے کی وجہ بنے اور جب کبھی بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اِس سے لامحالہ مہنگائی بڑھتی ہے۔  یہاں پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکومت نے مشکل حالات کے باوجود عوام کو ریلیف دینے کے لئے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ اپنی جگہ اہم ہیں اور کئی ایسے منصوبے حکومت تکمیل تک پہنچا چکی ہیں جن کا آنے والے وقتوں میں دوررس اثرات مرتب ہوں گے اور عوام کو ریلیف ملنے کے امکانات بھی روشن ہیں ایسے حالات میں کہ جب حکومت ایک طرح سے اپنی اننگز کے اختتامی لمحات میں ہے یعنی اگلے انتخابات کے لئے وقت کم رہ گیا ہے ایسے میں عملی طور پر عوام کو ریلیف دینے کے لئے موثر اقدامات وہ ذریعہ ہے جس سے نہ صرف حکومت اپنی مقبولیت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے گی بلکہ ساتھ ساتھ عوام کو بھی آسانی فراہم ہو جائے گی اس سلسلے میں حزب اختلاف پر یکساں ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے اقدامات میں حکومت کا ہاتھ بٹھائے اور ان  منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مناسب ماحول پیدا کرنے میں تعاون کرے جس کا مقصد عوام کو ریلیف دینا ہے۔