دیواروں پر لگے پرانے کیلنڈر اتار کر ایک طرف کر دیئے گئے۔ سال بدل گیا مگرپرندے اسی طرح اڑان بھر رہے ہیں۔وہی صبحیں ہیں جن کی لالی رخساروں پر تمتما رہی ہے۔وہی شامیں ہیں جو فریب دیتی ہیں۔ وہی سورج وہی چاند ستارے وہی شب وروز وہ دریا جو کہیں دھیرے دھیرے اور کہیں شرار سے اپنے راستے پر سیدھے کوئی خوبصورت سانپ کی طرح بل کھاتے کہیں آبشار کی صورت گرتے کہیں سنبھلتے جاتے ہیں۔وہیں ہوائیں جن کو کسی پاسپورٹ کی ضرورت نہیں وہی سڑکیں جو رکی ہوئی ہیں کہیں جاتی نہیں اپنی جگہ وہیں مقیم ہیں جہاں ان کا بیچ بویاگیا۔وہی انسانی رویے خوشی محبت اور نفرت حسد۔وہی موسم جو سال کے پہلے دن ہوتا ہے۔سالہا سال سے سال پہ گذر رہے ہیں او رکہنہ سال بن رہے ہیں۔مگر کچھ بھی تو نہیں بدلا۔کہتے سال بدلے گا۔ ہاں پرندے تو اسی طرح اپنے اپنے گھونسلوں سے رزق
کی تلاش میں نکلیں گے۔آدمیوں کے صبح اٹھنے سے پہلے فضاکو گرم کر دیں گے۔مگر بدلے گا تو شکاری اپناجال بدل لے گا۔ ان کو قابو کرنے اور ان کو مارنے او رفروخت کرنے کو پر تولے گا۔سال بدلے گا تو کیا ہوگا لطف یہ کہ ہمارا حال بھی بدلے۔ دنیا بھری ہے مگر دل اکیلا ہے۔ میلہ ہے اور ہر جا ہے مگر جو چار سو ہے وہ بے بسی ہے۔دنیا بھر میں نیو ایئر نائٹ منائی گئی۔کھیل تماشے ہوئے ڈھول باجے کاماحول۔ کہیں گٹار او رکہیں رباب منگے نے ماحول کی سردی کو جذبات کی گرمی میں بدلا۔دوسری طرف جو اداس نظریں تھی وہ متلاشی تھیں جو کہہ رہی تھیں ”آج اک اوربرس بیت گیا اس کے بغیر۔جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے“۔مجھے سندھی زبان کے مشہور شاعر شیخ ایاز کا شعر یاد آیا۔”جب شاخوں پر نئے پھول کھلیں گے ہم ایک بار پھر ملیں گے“۔یا ناصرکاظمی ”یاد ہے سیرِ چراغاں ناصر۔ دل کے بجھنے کا سبب یاد نہیں“۔رات بارہ بجے کے وقت نئے سال کی مبارکباد کے پیغامات برسرِ موبائل موصول ہوناشروع ہو ئے۔پھر کچھ نے بارہ بجنے سے قبل ہی بطورِ ایڈوانس مبارک سلامت کے ڈھول پیٹے۔چلو شکر کہ ایک سال اور بیت گیا۔ جیسا بھی گذرا۔ کیا کھویا کیا پایا اس طوطے کی رٹ کو چھوڑکر اب آئندہ کی فکر کریں۔ اگلے سال میں ہم نے کرنا کیاہے۔معاشرے کو کس طرح تبدیل کرنا ہے۔ ہم تو ایک ہجوم کی شکل ہیں۔پھرہجوم کا چہرہ کہاں ہوتا جو آئینے میں دیکھ کر اپنے آپ کو سجائے سنوارے اور اپنے بگڑی شکل کے خدوخال درست کرنے کی ناکام کوشش کرے۔ہندسے اگر بدل گئے تو کیا ہوا۔ہم نے اگر اپنے آپ کو نہیں بدلا تو پھر کیا بدلا۔یہ گھڑ ی ہے او رکیلنڈر ہے جو ہمیں احساس دلاتے ہیں کہ اب کیا وقت ہے اور آج کیاتاریخ ہے۔اگر یہ نہ ہوتے تو ہم روز ہونے والے واقعات سے وقت کے بدلنے کا اندازہ کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں کیلنڈر اور وال کلاک دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ہمیں تو اپنی زندگی میں پیش آنے والے واقعات دیکھنا ہیں۔تاکہ معلوم ہو ہماری زندگی میں کیا تبدیلی آئی ہے۔وہی سب کچھ جو دسمبر کی آخری رات میں تھا وہی نئے سال کی پہلی تاریخ سے پھر شروع ہو چکا ہے۔وہی چھیناجھپٹی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔۔سال بدلے تو یہ بھی بدل جائیں پھر مزا آئے۔