ماحول دوستی: معاشی سرگرمی

 قدرت کے تخلیق کردہ ماحولیاتی تنوع (eco system) کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی انتہائی بنیادی ضروریات سے زیادہ ہم زمین مخلوقات اور قدرتی وسائل کا استحصال نہ کرے۔ زیادہ سے زیادہ آسائش اور نمود و نمائش کی وجہ سے نہ صرف ماحول کو کچلا جا رہا ہے بلکہ دنیا کو کباڑ خانے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ کسی بھی چھوٹے بڑے شہر‘ گاؤں یا قصبے میں ایسے کباڑخانے دکھائی دیتے ہیں جہاں ڈھیروں ڈھیر چیزیں اِس لئے جمع کی جاتی ہیں تاکہ اُنہیں دوبارہ استعمال میں لایا جا سکے۔ اشیا کا پائیدارانہ استعمال ماحول کے تحفظ کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان کی مختلف صنعتیں قومی سالانہ پیدوار کا اکتالیس فیصد یا چھبیس ہزار ٹن حصہ ”ری سائیکل“ یعنی دوبارہ استعمال کر رہی ہیں۔ ایسی صنعتیں موجود ہیں جنہوں نے گزشتہ سال (دوہزار اکیس) تک پانچ ارب سے زیادہ ڈبوں کو ری سائیکل کیا۔ ذہن نشین رہے کہ ٹیٹرا پیک جن 190ممالک میں کام کر رہا ہے‘ ان ممالک کے شمار و درجہ بندی میں پاکستان صف ِاوّل کے دس ممالک میں شامل ہے۔ ری سائیکلنگ کمپنیاں ٹیٹرا پیک ڈبوں سے کاغذ‘ المونیم اور پولیتھلین کو الگ الگ کرتی ہیں۔ کاغذ کو گتوں جبکہ دیگر حاصل شدہ چیزوں کو ٹائلوں اور سلوں کی تیاری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جن کا استعمال کر کے مکانات کا داخلی درجہئ حرارت سخت گرمی یا سردی کے مقابلے دس ڈگری تک کم رکھا جا سکتا ہے۔ علاؤہ ازیں ’ری سائیکلنگ‘ سے بننے والے مٹیریل سے کیبن‘ لان اور پارک کے فرنیچر اور جھولے بھی تیار کئے جاتے ہیں‘ جن کے معیار اور پائیداری کی وجہ سے ان کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔پاکستان میں ری سائیکلنگ کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ فضلے کو ٹھکانے لگانے کا ہے اور استعمال شدہ چیزوں کے پائیدار استعمال سے جڑے منصوبوں کا فقدان بھی پایا جاتا ہے مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہر طرح کے کوڑے کرکٹ (ٹھوس گندگی) کو تلف کرنے کے لئے ایک ہی ڈبے میں ڈالا جاتا ہے اور مختلف اقسام کے ٹھوس فضلے یعنی شیشے‘ کاغذ‘ پلاسٹک وغیرہ کو الگ الگ رکھنے کا تصور ہی نہیں پایا جاتا۔ ایک کوڑے دان سے خالی ڈبوں کو اکھٹا کرنے کے عمل سے ری سائیکلنگ کی لاگت دو سے تین گنا بڑھ جاتی ہے کیونکہ کوڑے کو علیحدہ کرنا کافی دشوار گزار کام ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے قانون فراہم کرنا چاہئے۔ جب حکومت کہے گی کہ تمام ٹھوس فضلہ کسی ایک ہی کوڑے دان میں نہیں ڈال سکتے تو صارفین فضلے کو الگ الگ رکھنا شروع کردیں گے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو کون فضلے کو ٹھکانے لگانے میں اپنا وقت اور پیسے خرچ کرنا چاہے گا؟ پشاور سمیت خیبرپختونخوا میں فضلے کے ڈھیر اُٹھانے اُور اُنہیں تلف کرنے پر حکومت سالانہ کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے اور چونکہ فضلہ مقدار میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یہ الگ الگ بھی نہیں ہوتا تو یہی وجہ ہے کہ اِسے تلف کرنے میں مشکلات کے علاوہ لاگت بھی زیادہ آتی ہے جس کے باعث شہری علاقوں سے پچاس فیصد سے زائد فضلہ نہیں اُٹھایا جاتا لیکن اگر قانون سازی کے ذریعے شہری ذمہ داریوں کا ازسرنو تعین کر دیا جائے اور فضلے جیسی بظاہر بیکار جنس میں چھپی معاشی سرگرمی کی جانب توجہ دلائی جائے تو شعور و احساس عام ہونے کی برکت یہ ہوگی کہ اِس سے نہ صرف شہروں‘ دیہات اور قصبہ جات میں جابجا پڑے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر صاف ہوتے چلے جائیں گے بلکہ ہر تحصیل ویلیج یا نیبرہڈ کونسل (بلدیاتی یونٹس) کی سطح پر پیدا ہونے والا فضلہ متعلقہ انتظامیہ کے لئے آمدنی کا پائیدار ذریعہ بھی بن جائے گا اور ایسا ہونے کی صورت (ممکنہ طور پر) گویا ”ایک تیر سے دو شکار“ ہوں گے کہ ایک تو مستقل آمدنی کا وسیلہ ہاتھ آئے گا اور دوسرا تحفظ ِماحول بھی ہوتا رہے گا جو وقت کی ضرورت (حالات کا تقاضا) ہے۔