کورونا کی نئی لہر کا خطرہ

 کورونا کی کئی لہروں کا منصوبہ بندی سے مقابلہ کرنے کے بعد اب ایک اور لہر کاسامنا ہے اور اس موقع پر ایک بار پھر حکومت اورعوام نے مل کر کورونا کی نئی اور زیادہ خطرناک قسم سے نمٹنا ہے۔ جس کیلئے احتیاطی تدابیر یعنی ایس اوپیز پر عمل درآمد کرنا اولین شرط ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کی نئی لہر کے آغاز کے واضح شواہد نظر آرہے ہیں۔اپنی ایک ٹوئٹ میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ مثبت نمونوں کی جینوم سیکوئنسنگ سے کورونا کی اومیکرون قسم میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور ایسا خاص طور پر سے کراچی میں ہورہا ہے۔اسد عمر نے عوام کو یاددہانی کروائی کہ وہ وائرس سے بچا ؤکیلئے ماسک کا استعمال کریں۔ گزشتہ 3 روز سے ملک میں کورونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح ایک فیصد سے زائد رہی ہے۔ این سی او سی کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں کورونا کے کل 45 ہزار 585 ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے 594 ٹیسٹ مثبت آئے یوں مثبت کیسز کی شرح 1.30 فیصد رہی۔ ملک بھر سے کورونا وائرس کی اومیکرون قسم کے مقامی منتقلی کے کیسز سامنے آنے کے بعد ملک میں کورونا کیسز کی شرح مسلسل 3 روز سے ایک فیصد سے زائد ہے۔جبکہ اس سے قبل ملک میں تقریبا 2 ماہ تک کورونا کیسز کی شرح ایک فیصد سے کم رہی تھی اور یہ خیال کیا جارہا تھا کہ شاید ملک کو دربارہ وائرس سے متعلق بندشوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔گزشتہ لہروں میں پاکستان کو خدا نے بڑے پیمانے پرہلاکتوں سے بچائے رکھا ہے اورکورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد سے اب تک ملک میں 12 لاکھ 96 ہزار 527 افراد اس کا شکار ہوچکے ہیں جن میں سے 12 لاکھ 57 ہزار 24 افراد اس سے صحت یاب ہوئے جبکہ 28 ہزار 941 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔دوسری طرف عالمی ادارہ صحت کے  سربراہ ٹیڈ روس ایڈہانوم نے اپنی ایک  سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا، ''گوکہ دنیا کا کوئی بھی ملک وبا سے محفوظ نہیں ہے تاہم اب ہمارے پاس کووڈ انیس کو روکنے اور اس کا علاج کرنے کے لیے بہت سارے آلات موجود ہیں۔ لیکن جب تک عدم مساوات برقرار رہے گی، مختلف طریقوں سے وائرس کے پھیلنے کے زیادہ خطرات بھی برقرار رہیں گے اور ہم اسے روک یا اس کے بارے میں پیش گوئی نہیں کرسکیں گے۔ لیکن اگر ہم عدم مساوات کو ختم کردیں تو ہم اس وبا کو بھی ختم کرسکتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا یقینا عالمی طاقتوں کے خود غرضانہ رویوں کے سامنے آنے کے بعد مشکلات کو دیکھتے ہوئے ایک تلخ حقیقت ہے۔ چین واحد عالمی طاقت ہے جس نے کمائی کی بجائے زیادہ تر ممالک کو انسانی ہمدری کی بنیاد پر ویکسین فراہم کئے۔ جبکہ برطانیہ، امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی کمپنیوں نے کورونا ویکسین سے بھی کمائی کو ہی مد نظر رکھا اوران ممالک کو ہی ویکسین فراہم کرنے کو ترجیح دی جو زیادہ ادائیگی کر سکتے تھے۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کو زیادہ شکایت امریکہ سے ہی ہوگی کیونکہ ٹرمپ دور میں تو عالمی ادارے کے ساتھ امریکہ نے دشمنوں کا رویہ اپنایا تھا اور الزام لگایا کہ وہ چین کے موقف کی حمایت کرتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سرمایہ دار ممالک اور ان کی بڑی کمپنی ایک طرح سے پوری دنیا پر قابض ہیں اور ممالک کی حکومتیں بھی ان کمپنیوں کی پالیسی کے تحت فیصلے کرتی ہیں کورونا وباء نے سرمایہ دارانہ نظام کی خامیوں کو ایک بار پھر دنیا پر واضح کیا جہاں سب کچھ سرمایہ ہے اور انسانی اقدار اور جذبات کی کوئی قدر و قیمت نہیں یہی وجہ ہے کہ کورونا وباء نے جب سر اٹھایا تو سرمایہ دار ممالک کی کمپنیوں نے اس سے فائدہ اٹھانے کی منصوبہ بندی کی اور ان ممالک کے ساتھ پہلے سے سودے طے کئے جن کے پاس ڈھیر سارا سرمایہ موجود تھا اور دوسری طرف ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا کہ وہ  اگر وباء کا مقابلہ اپنے وسائل سے کر سکتے ہیں تو کریں ورنہ عالمی طاقتوں کی طرف سے انہیں کسی سپورٹ اور مدد کی توقع نہیں کرنی چاہئے ایسے حالات میں وباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اب اس وقت وباء کی زیادہ ہلاکت خیز قسم کا خطرہ پوری دنیا پر ایک بار پھر منڈلارہا ہے۔یہ تو ملکی اور عالمی سطح پر کورونا وبا سے لاحق خطرات کی بات ہوئی۔ اب دیگر عالمی امور پر نظر ڈالیں تو رواں ہفتے امریکہ میں چین کے سفیر نے جو بیان دیا اس میں کھلی نصیحت ہے امریکہ اور دیگر ممالک کیلئے۔چین کے سفیر چن گانگ نے گذشتہ  روز ایک پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ اگر نئی سرد جنگ جاری ہے تو چین سوویت یونین نہیں ہے جو ہار جائے گا۔ چن گانگ نے امریکہ کو تنبیہ بھی کی کہ وہ تائیوان کے معاملے میں احتیاط سے کام لے کیونکہ یہ تنازع دونوں ممالک کو آمنے سامنے لا سکتا ہے۔چن گانگ کا مزید کہنا تھا کہ 'چین نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کی وجوہات کا بغور جائزہ لیا ہے اور اس سے سبق سیکھا ہے۔ انھوں نے کہا کہ 'چین کی کمیونسٹ پارٹی سوویت یونین کی طرح ضدی نہیں ہے۔ امریکہ اب چین کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے جبکہ چین میکسیکو اور کینیڈا کے بعد امریکہ کا تیسرا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ چینی سفیر کے اس بیان میں کئی پہلو قابل غور ہیں۔ اول تو چین کا امریکہ کو یہ باور کرانا اہم ہے کہ وہ چین کو شکست نہیں دے سکتا، دوسری اہم بات جو چینی سفیر نے کہی وہ چین کی کامیاب معاشی نظام ہے جس میں اس نے کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام دونوں سے کامیابی کے ساتھ استفادہ کرنے کی مثال قائم ہے۔