زخم کا نشان

سب کچھ میرے نوٹس میں تھا۔کیونکہ یہ میرے گھر کی بات ہے۔باکسنگ ہو یا کک باکسنگ یا کراٹے اور جوڈو اور کنگ فو ہوں۔یہ کہہ کر سکھلائے جاتے ہیں کہ یہ کھیل آپ کے دفاع کیلئے ہیں۔آپ اپنا دفاع کرناسیکھیں۔مگر بعد میں یہ کھیل دوسرے پر حملہ کرنے کے لئے مخصوص ہو جاتے ہیں۔جب تک باکسنگ میں کسی کے منہ پر مکا نہ ماراجائے پوائنٹ نہیں ملتا۔پھر اس کو ناک آؤٹ کرنے کے لئے اس کے ناک اور جبڑوں اور چہرے پر مسلسل گھونسے بازی کر کے اس کو گرا کر میچ جیتا جاتاہے۔ضروری نہیں کہ میرے ان خیالات سے کسی کو اتفاق ہو مگرجو ہمارے دل کی باتیں ہیں وہ ہم نے دل کا بخار نکالنے کوبیان کردی ہیں۔یہ دنیا ہے دنیا کا نظام اسی طرح چل رہاہے۔وہ سیمی فائنل میں پہنچ گیا تھا۔جب مقابلہ ختم ہونے پر وہاں اس کی فتح کی اعلان ہوا تو ہمارے گھرانے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔مقابلے کے رنگ کے آس پاس جو اس کے استاد کھڑے تھے اور پھر اس کے دوستوں نے موبائل پر اس کی ماں کو خوشی کی یہ اطلاع دے دی تھی۔ سب خوشی سے نہال تھے۔ کیونکہ اب تو فائنل کی فتح دو ہاتھ پر تھی۔ اس لڑکے نے یہ مقابلہ جیت جانے کے لئے بہت محنت کی تھی۔ پھر اس سے قبل بھی وہ انعامات لے کر گھر آتا رہا تھا۔اب کے یہ مقابلہ صوبے کے اندر چیمپئن بننے کے لئے تھا۔محنت اس لئے بھی کہ استاد نے اس کو اپنا وزن انتہائی درجے تک کم کرنے کو کہاتھا۔ کیونکہ مقابلہ اپنے ہم وزن سے ہوتا ہے۔سولہ سال کی عمر او ردبلا پتلا کانچ اور کاش کا سا جسم۔یہ نہیں کھانا وہ نہیں کھانا۔مگر وہ انسان تو ہے پھر بچہ ہے بلکہ بھوکا رہنا ہی بہتر تھا۔اس کی ماں کو مبارکباد مل رہی تھی۔ اب تو باکسر کے آنے کا انتظار تھا۔ سب گھر والے اگر ہاتھوں میں پھول لئے کھڑے نہ تھے مگر آنکھوں میں انتظار کے یہ گل و لالہ لے کر دروازے کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے تھے۔جب سب نے اس کی ماں کومبارک کا پیغام دیا تو مجھے بھی تو دینا چاہئے تھا۔ مگر میری مبارکباد میں ایک قسم کی تلخی او رکڑواہٹ مجھے خود اپنے گلے میں محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے مبارکباد دینے میں خاصی دیر کر دی تھی۔مگر سوچاکہ وہ کہے گی اس کو خوشی نہیں ہوئی۔اس کی نانی بھی ا س کی جیت پر خوش تو تھی مگر وہ بھی دبی دبی سی مسکراہٹ میں کچھ اور کہنا چاہتی تھی مگر نہ کہہ سکی۔سو میں نے کہہ دیا۔ بیٹی مبارک ہو تمھارا بچہ دوسری ماں کے بچے کوزخمی اور ناک آؤٹ کرنے کے بعد جیت گیاہے۔میرے کڑوے کسیلے لہجے کو اس نے محسوس کیا۔ مگر مصنوعی سی مسکراہٹ سے باریک سا جواب دے دیا۔مجھے ا س لئے خوشی حاصل نہ ہوئی کہ اس قسم کے کھیلوں میں کتنے لوگ مخالف کے مکے سے گہری چوٹ لگنے پر جان کی بازی بھی ہا رچکے ہیں پنجاب میں پہلوانی کی شکل کاایک مقابلہ ہے جس میں دونوں فریق ایک دوسرے کو مکوں کے بجائے زناٹے دار تھپڑوں سے مارتے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ ا س قسم کے کھیل ایجاد ہو چکے ہیں کہ سامنے والے کو جو اپنا ہی تو ہوتا ہے منہ میں کھینچ کر دھپڑ اور پھر کرارے دا رچانٹے رسید کر کے جیتا جائے۔ہوں گے ان کھیلوں کا شوق رکھنے والے اور کھل کھیلنے والے مگر نجانے کیوں مجھے کیوں اس قسم کے تماشوں سے بیر ہے۔اب بل فائٹنگ لیں۔جس میں طاقت کے نشے میں چور بیل کے ساتھ ایک خالی ہاتھ کھلاڑی الجھتا بھاگتادکھائی دیتا ہے۔وہ تو کبھی اپنے سینگوں کے ساتھ کھلاڑی کی آنتیں بھی نکال دیتا ہے۔وہ بھی وہا ں جان کانقصان کر بیٹھتے ہیں۔تعمیری کھیل ہوں تو کیا اچھاہے۔کراٹے ہو ں یا باکسنگ ہو یا کنگ فو۔پھر اور اسی قسم کے اور کھیل ہوں جس میں انسانی جان جانے کا خطرہ ہو۔میں تو کہتا ہوں ان کو سرے سے ختم کر دینا چاہئے۔