توقعات اور خدشات کے ساتھ 2022 شروع ہوچکا ہے۔ پچھلے برس2021 میں عالمی اور علاقائی سیاست میں جو واقعات پیش آئے ان کی وجہ سے یہ سال تاریخ میں یادگار رہے گا۔اس سال کے اہم واقعات میں افغانستان میں امریکی شکست اور طالبان حکومت کا قیام، امریکی کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل پر حملہ، امریکہ اور نیٹو کی روس اور چین کے ساتھ کشیدگی، روس اور چین کی باہمی قربت میں اضافہ، آکس معاہدہ، بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف حکومتی سرپرستی میں جاری تشدد، مختلف ملکوں میں جمہوریت پر حملے، عالمی سطح پر غربت، آلودگی میں اضافہ اور کرونا وائرس کی جاری تباہی شامل ہیں۔2021 کی سب سے پہلی بڑی خبر یہ تھی کہ سینکڑوں برس سال پرانی جمہوریت امریکہ میں پہلی بار ہموار انتقال اقتدار نہیں ہو سکی اور جنوری میں کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل پر سابق امریکی صدر ٹرمپ کے حامیوں نے حملہ کردیا۔ اس واقعے میں ایک خاتون اور ایک پولیس افسر سمیت 5 افراد مارے گئے۔ جو بائیڈن نے اگرچہ جمہوری اقدار کی بحالی کے عزم کا اظہار کیا ہے مگر ٹرمپ کی جانب سے انتخابی نتیجہ تسلیم کرنے سے انکار، بڑے پیمانے پر انتخابی دھوکہ دہی کے جھوٹے دعووں، نتائج تبدیل کرنے کی لامتناہی کوششوں اور مختلف سازشی نظریات پھیلانے سے وہاں جمہوریت، سرکاری نظام اور میڈیا پر عوامی اعتماد کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ سابق صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذہ بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی تاریخ کے پہلے صدر بن گئے جن کے خلاف مواخذے کی دوتحریکیں ناکام ہوئیں۔اس سال کی دوسری بڑی اور اہم پیش رفت افغانستان سے امریکہ کا انخلا اور وہاں طالبان حکومت کا قیام تھا۔ 15 اگست کو افغان طالبان نے کابل پر قبضہ کرلیا افغان قیادت اور افواج میدان میدان سے بھاگ گئیں۔ امریکہ نے بین الافغان امن معاہدے کیلئے کوششیں کیں مگر سابق صدر اشرف غنی کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ اس کے بغیر نکل گیا۔ خدشہ یہ تھا اس طرح افغانستان میں ایک دفعہ پھر سابق سویت یونین کے انخلا کے بعد جیسی خانہ جنگی شروع ہو جائے گی مگر طالبان کی جانب سے عام معافی، ان کے تدبر اور حربی طاقت اور ان کے مخالفین کی پے درپے شکستوں کی وجہ سے تقریبا پورے افغانستان پر ان کی حکومت قائم ہوگئی اور خانہ جنگی نہیں ہوسکی۔ بیس سال بعد ان کی حکومت کا احیا امریکہ کیلئے شرمندگی اور شکست کے مترادف تھا اور پاکستان نے بڑے عرصے بعد اپنے مغربی سرحد پر ایک دوست حکومت کے قیام پر سکون کا سانس لیا۔ طالبان نے افغانستان پر حکومت تو قائم کرلی مگر بڑھتی ہوئی غربت، بے روزگاری، مہنگائی، بڑے پیمانے پر غذائی قلت، بدامنی کا خوف، نظام حکومت چلانے کیلئے ماہرین کی قلت، نقدی کی کمی، افغانستان پر عائد پابندیاں اور افغانستان کی تمام قومیتوں، عالمی مالیاتی اداروں اور دنیا کو قابل قبول حکومت قائم کرنا ان کیلئے آسان نہیں ہے۔ پھر طالبان حکومت کے قیام کے بعد افغانستان کے 9.5 ارب ڈالرز کے مالی اثاثے امریکہ اور یورپ کے مرکزی بینکوں میں منجمد کردئیے گئے۔ افغانستان کی معیشت کمزور ہے۔ اس کی روزانہ ٹیکس آمدنی تقریبا4.4 ملین ڈالر ہے۔ یہ اپنے حکومتی اخراجات کے لیے ماہانہ 15 کروڑ ڈالر درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان حکومت افغان مرکزی بینک کے اربوں ڈالر کے ذخائر حاصل کرنا چاہتی ہے۔اس برس کے دوران روس اور چین کی قربت اور باہمی تعاون بڑھتا گیا اور امریکہ اور مغربی ممالک ان کے اتحاد کے آگے بے بس دکھائی دئیے۔ امریکہ بے شک اکیلے چین یا روس سے زیادہ طاقتور ہے لیکن اگر یہ دونوں اپنی فوجی و معاشی طاقت اور خارجہ پالیسی کے مقاصد یکجا کرلیتے ہیں تو اس سے یورپ اور ایشیا بلکہ پوری دنیا میں طاقت کا توازن بدل جائے گا اور یہ اتحاد امریکہ اور نیٹو کیلئے نقصان دہ ہوگا۔ دونوں ممالک اپنی شراکت داری کو امریکی اثر و رسوخ کم کرنے کرنے کیلئے بڑی ہوشیاری سے استعمال کررہے ہیں۔چین نے ہانگ کانگ پر ایک نیا قومی سلامتی قانون نافذ کیا۔ وہ عالمی سیاست اور معیشت پر اجارہ داری قائم کرتا جارہا ہے۔ روسی صدر پیوتن کے مطابق اگرچہ روس کو چین کے ساتھ کسی اتحاد کی ضرورت نہیں ہے تاہم دونوں کا اتحاد عالمی توازن کو مکمل تبدیل کردے گا۔ ان کے بقول ان تعلقات کے خلاف سرگرم کچھ مغربی طاقتوں کے مقابلے اور اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے دونوں ملکوں کو مشترکہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ یوکرین کی سرحد پر تقریبا ایک لاکھ روسی افواج کی موجودگی کی وجہ سے روس اور نیٹو کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی۔ روس امریکہ اور نیٹو سے ضمانتیں طلب کررہا ہے کہ نیٹو یوکرین اور جارجیا کو نہ اپنے اتحاد میں شامل کرے گا نہ اس خطے میں اپنے بیلسٹک میزائل نصب کرے گا۔ جبکہ مغربی ممالک نے روس پر یوکرین میں مداخلت، علیحدگی پسندوں کی مدد کرنے اور اس کی سرحد پر افواج جمع کرکے اس پر عنقریب حملہ آور ہونے کا الزام لگایا ہے۔ اس برس جمہوریت پر مختلف ممالک میں حملے کیے گئے۔ مثلا فروری میں میانمار میں فوج نے جمہوری حکومت ختم کردی اور منتخب حکمران آنگ سان سوچی گرفتار کردیا۔ وہاں جمہوری تحریک میں عوام پر ظلم و تشدد شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ اکتوبر میں سوڈانی فوج نے وزیراعظم عبداللہ حمدوک کی حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پہ قبضہ کرلیا۔ چاڈ، گیانا اور مالی میں بھی منتخب حکومتیں ختم کی گئں۔ امریکہ، فرانس اور بھارت جیسے بڑے بڑے بزعم خود جمہوریت کے علمبردار ممالک میں بھی تنگ نظری اور انتہاپسندی بڑھ گئی۔15 ستمبر کو آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکا نے ایک سہ ملکی معاہدے پر دستخط کیے جسے آکس کا نام دیا گیا۔ اسے مستقبل کے عالمی منظرنامے کی تشکیل میں اہم عامل کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ تینوں ممالک سائبر سکیورٹی، مصنوعی ذہانت، کوانٹم ٹیکنالوجی اور انٹلیجنس معلومات شیئر کرنے پر باہمی تعاون کریں گے۔ اگرچہ معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کسی نے چین کا نام نہیں لیا مگر امریکہ آسٹریلیا اور برطانیہ کے ساتھ اس دفاعی معاہدے اور انڈوپیسفک اتحاد کے ذریعے جنوبی بحیرہ چین میں چینی اثر و رسوخ کم کرنا، چین کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت کو لگام ڈالنا، جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی کی تیاری میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اور آسٹریلیا کو اس کے مقابل کھڑا کرنا چاہتا ہے اس سال بھی امریکہ میں گن کلچر اور اسلحہ تشدد میں اضافہ ہوا۔ امریکہ میں اسلحہ تشدد کی بڑھتی ہوء شرح اور آٹو میٹک اسلحہ لائسنسوں تک عوام، بالخصوص نوجوانوں، کی رسائی کی وجہ سے ہر سال امریکہ کے سکولوں، بازاروں، نائٹ کلبوں اور سڑکوں پر قتل عام کے واقعات تواتر سے پیش آرہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر غریب، سیاہ فام، ایشیا نژاد، دوسرے مذاہب سے وابستہ لوگوں، بچوں، نوجوانوں اور خواتین کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ 2020 میں ساڑھے انیس ہزار افراد اسلحہ تشدد میں مرے تھے جبکہ 2021 میں ان کی تعداد اور زیادہ ہوگئی۔ غربت اور بے روزگاری میں بھی عالمی سطح پر اضافہ ہوا ہے۔ خوراک اور صاف پانی کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف بی جے پی حکومت کی آشیرباد سے معاندانہ اقدامات جاری رہے۔ دسمبر میں امریکہ نے چین میں مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو جواز بناتے ہوئے فروری 2022 کی بیجنگ سرمائی اولمپکس کا سفارتی بائیکاٹ کردیا۔ کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا نے بھی ایسا کیا۔دسمبر میں ہی بھارتی وزیراعظم مودی نے کسانوں کی زبردست احتجاجی تحریک سے مجبور ہوکر متنازع زرعی قوانین واپس لینے کا اعلان کیا جس کے بعد کسانوں نے 15 ماہ سے جاری احتجاج ختم کردیا۔