بھارت کا مخاصمانہ طرز عمل

خوش قسمت وہ ممالک ہیں جن کو اچھے پڑوسی ملے ہیں یعنی ان کے پڑوسی ممالک تعاون کرنے والے، ایک دوسرے کی سلامتی اور بقاء کا احترام کرنے والے ہیں۔دوسری صورت میں اگر کسی ملک کو بھارت جیسا پڑوسی ملے تو اس کو بد قسمتی کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں۔ اس وقت بھارت کے پاکستان سمیت اپنے زیادہ تر پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہی ہیں۔بھوٹان، مالدیپ، سری لنکا،بنگلہ دیش، برمااور چین کے ساتھ بھارت کی سرحدیں ملتی ہیں اور ان سب کے ساتھ سرحدی کشیدگی کا ماحول ہے، جنوبی ایشیاء قدرتی وسائل سے مالامال خطہ ہے اگر ممالک کے درمیان کشیدگی نہ ہو اور تجارت سمیت باہمی تعلقات کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوں تو یہاں کے عوام کی قسمت بدلی جاسکتی ہے۔ انہی مقاصد کے تحت خطے کے ممالک نے مل کرایک تنظیم سارک کے نام سے بنائی۔تاہم اس کے اجلاس بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث نہیں ہورہے۔اس امر کی طرف گزشتہ روز  توجہ دلاتے ہوئے  وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے سارک اپنی حقیقی صلاحیت کا ادراک کرنے میں ناکام رہا‘یوں ایک بار پھر پاکستان نے بھارت کو جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون تنظیم(سارک) سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دے دی اور کہا کہ اگر بھارتی وزیرا عظم نریندر مودی اسلام آباد نہیں آسکتے تو ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوجائیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے  ایک اہم پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان کے نزدیک سارک اجلاس ایک اہم فورم ہے اور ہم 19واں سارک اجلاس کے انعقاد  کے حوالے سے پرعزم ہیں اور اگر بھارت کو اجلاس میں شرکت پر کوئی مسئلہ ہے تو وہ ویڈیو لنک کے ذریعے اپنی شرکت کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اسلام آباد میں 16نومبر2021ء کو سارک سربراہی اجلاس  کا انعقاد طے پایا تھا  لیکن بھارت نے کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے سربراہی اجلاس نہیں ہوسکا کیونکہ سارک چارٹر کے مطابق سربراہان حکومت کا اجلاس منعقد نہیں کیا جاسکتا اگر ممبران میں سے کوئی شرکت کرنے سے انکار کرتا ہے۔ وزیر خارجہ نے آئندہ سربراہی اجلاس کے لیے تمام ممبران کو دعوت دیتے ہوئے کہا کہ اگر بھارت، اسلام آباد میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں شرکت نہیں کر سکتا تو کم از کم وہ دوسرے اراکین کو روکنے سے گریز کرے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کے مایوس کن روئیے کے باوجود سارک نے کووڈ 19 وبائی مرض سے نمٹنے میں فعال کردار ادا کیا۔ وزیر خارجہ کا یہ کہنا بھی سو فیصد درست ہے کہ بدقسمتی سے خطے میں پائیدار امن و استحکام کے امکانات اور اقتصادی ترقی کے وسیع امکانات اور علاقائی تعاون بھارت کے معاندانہ رویے کے باعث یرغمال ہو چکا ہے۔ دیکھا جائے تو بی جے پی کی مودی حکومت نے خارجہ پالیسی میں پاکستان مخالف اورداخلی طور پر مسلم مخالف رویہ اپنایا ہے۔ اب چین کے ساتھ بھارت کی کشیدگی کا کچھ تذکرہ کرتے ہیں جہاں بھارت کو منہ کھانی پڑ رہی ہے اور وادیگلوان بھارت کیلئے رسوائی کی گھاٹی ثابت ہوئی ہے جہاں بھارتی فوجیوں کو مار پڑی اور چینی فوج کے ساتھ سال گزشتہ میں جھڑپ کے دوران ایک افسر سمیت بیس فوجی مارے گئے تھے۔