سکواش اور ہاکی کی زبوں حالی 

سکواش اور ہاکی وہ دو کھیل ہیں کہ جن میں ایک عرصہ دراز تک دنیا میں پاکستان کا طوطی بولتا تھا سکواش میں نواں کلی پشاور سے تعلق رکھنے والے خان برادران نے کم و بیش نصف صدی تک بلا شرکت غیرے حکومت کی ہاشم خان اعظم خان روشن خان اڈی جہان قمر زماں محب اللہ سینئر محب اللہ جونیر جہانگیر خان اور جان شیر خان جو آپس میں قریبی رشتہ دار تھے یکے بعد دیگرے لگ بھگ 50 برس تک دنیا میں ہونے والا ہر اہم سکواش ٹورنامنٹ جیتتے رہے۔جان شیر کے بعد مندرجہ بالا سکواش کھلاڑیوں کے معیار کا پاکستان کوہی بھی کھلاڑی پیدا نہ کر سکا سکواش کی طرح ہاکی میں بھی پاکستان کو ید طولی حاصل تھا دنیا میں ہر چار سال بعد ورلڈ اولمپکس اور ایشیائی اولمپکس منعقد ہوتے ہیں جن میں ہاکی کے مقابلے بھی شامل ہیں کچھ عرصے سے تو اولمپکس کے علاہ بھی عالمی سطح پر مختلف ممالک میں ہاکی کے علیحدہ علیحدہ ٹورنامنٹ بھی کھیلے جارہے ہیں۔ اگر آپ منددجہ بالا ہاکی کے مقابلوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو آپ یہ جان کر خوش ہوں گے اور فخر سے آپ کا سر بلند ہوگا کہ کم وبیش 50 برس تک ہم نے دنیا میں ہونے والا ہر اہم ہاکی ٹورنامنٹ جیتا ہے اور اگر کبھی ہم پہلی پوزیشن حاصل نہ بھی کر سکے تو دوسری یا تیسری پوزیشن ہم ضرور حاصل کیا کرتے تھے بالفاظ دیگر ہم وکٹری سٹینڈ تک ضرور پہنچا کرتے تھے بین الاقوامی سطح پر ہاکی میں ہماری پے در ہے کامیابیوں کی ایک لمبی داستان ہے بالکل اسی طرح کہ جس طرح فٹ بال میں برازیل کا ایک منفرد مقام ہے۔ہاکی میں بے شک بھارت کے دھیان چند کا ایک منفرد مقام ہے اور اس کا ثانی آج تک کوی نہ پیداہو سکا ہے کہ جس طرح کرکٹ میں سر ڈونلڈ بریڈ مین یا فٹبال میں میراڈونا کا ایک اعلی مقام ہے پر اگر اسی لحاظ سے اگرہم 1948 سے لے کر سال 1998 تک کے 50 برس پر محیط عرصے پر ایک تنقیدی نظر دوڑائیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ اس دوران ہم نے کئی ایسے کھلاڑی پیدا کئے کہ دنیاے ہاکی نے پھر ان کا نعم البدل نہ دیکھا ہم کس کی بات کریں اور کسے چھوڑیں جن کھلاڑیوں کے نام ہم درج ذیل سطور میں درج کر رہے ہیں ان میں ہر کھلاڑی اپنی جگہ یکتا تھا مثلا فاروڈ لائن کی بات کریں تو ذہن میں فوراً حمیدی‘ نصیر بندہ‘ وحید ذکا الدین حیات‘ مطیع اللہ‘ سلیم اللہ‘کلیم اللہ شہنازشیخ‘حسن سردار‘ نور عالم رشید جونیئر کے نام آ جاتے ہیں اگر سینٹر لائن کا ذکر کریں تو حبیب علی کڈی‘انوار احمد خان‘ قاضی محب کی شکل انکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے اگر فل بیک کی پوزیشن پر کھیلنے والوں کو یاد کریں تو عاطف منیر ڈار کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے 1948 میں لندن میں ہونے والے ورلڈ اولمپکس میں ہاکی میں ہم نے چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی 1952 میں ہیلسنکی ورلڈ اولمپکس میں ہم نے کانسی کا تمغہ جیتا پھر چار سال بعد آسٹریلیا میں منعقد ہونے والے ورلڈ اولمپکس میں ہم دوسری پوزیشن پر تھے اورہم نے چاندی کا میڈل حاصل کیا 1960 کے روم اولمپکس میں بالاخر ہم نے سونے کا تمغہ جیت ہی لیا اور اس کے بعد تو ایک لمبے عرصے تک ہم ہاکی میں دنیا بھر میں ٹاپ پر ہی رہے۔ ہاکی کے زوال کی اور بھی کئی وجوہات ہوں گی پرہم نے ملک کے ہاکی کے گراؤنڈز میں آ سٹرو ٹرف کے بچھانے میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا جبکہ دنیا کے ہاکی کھیلنے والے ممالک اپنے اپنے ملکوں میں ہاکی اسٹرو ٹرف پر کھیل رہے تھے ہم اپنے ر وایتی گھاس والے گراؤنڈز پر کھیلتے رہے۔ بعد از خرابی بسیار جب ہم نے انجام کار ملک میں اسڑو ٹرف کا اغاز کیا تو بھی محدود پیمانے پر کیا اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان ہاکی کے کھلاڑیوں کو چونکہ اسٹرو ٹرف پر کھیلنے کا وافر تجربہ نہیں ہوتا وہ کی بین الاقوامی سطح پر کھیلنے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتے لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ ملک کے ہر ضلع میں کم از کم ایک ایسا ہاکی گراؤنڈ ضروری ہے کہ جس میں سٹرو ٹرف ہو اس ملک میں ہاکی کا بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے جس طرح حکومت کرکٹ کی مالی لحاظ سے دل کھول کر سرپرستی کر رہی ہے۔ بالکل اسی طرح وہ ہاکی کی بھی رہنمائی کرے تاکہ ہاکی کے کھلاڑیوں کو نان نفقہ کی فکر نہ ہو ان کیلئے بھی کرکٹ کی طرح کوئی پرکشش مالی سٹرکچر تشکیل دیا جائے اسی طرح جب تک سکواش کورٹس کو عام نہیں کیا جائے گا اور ہر شہر میں سکواش ٹورنامنٹ نہیں منعقد کروائے جائیں گے سکواش کا مستقبل بھی تاریک رہے گا خان براداران کی طرح روز روز از خود کھلازی پیدا نہیں ہوتے انہیں ٹرین کرناپڑتا ہے۔